
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان فوری انتخابات کے لیے بڑے پرجوش ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان سنگین ترین معاشی بحران کا شکار ہے ۔ معاشی بحران کے خاتمے کا واحد حل یہ ہے کہ فوری طور پر صاف اور شفاف انتخابات کرا دیئے جائیں تاکہ عوام کی بااعتماد منتخب حکومت معیشت کی بحالی اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بڑے قومی فیصلے کر سکے۔عمران خان کا مطالبہ آئینی ہے مگر نئے انتخابات کے نتائج کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہیں اور چاہتی ہیں کہ عام انتخابات قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد کرائے جائیں ۔ اتحادی حکومت کا خیال ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے کرانے سے پاکستان کے سیاسی و جمہوری نظام کا روایتی تسلسل بگڑ جائے گا۔ انتخابی عمل دوبار کرانے سے ملک پر مالی بوجھ پڑے گا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا ۔عمران خان نے 2018ء کے انتخابات سے پہلے عوام کو ’’تبدیلی‘‘ اور ’’ نئے پاکستان‘‘ کا سلوگن دیا تھا جن پر وہ عمل کرنے سے قاصر رہے تھے۔ عمران خان تا حال قوم کے سامنے انتخابات کے بعد کا ویثرن اور قومی ایجنڈا پیش نہیں کر سکے۔اگر 2013 ء اور 2018 ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں کی سیاسی سرگرمیوں اور کارکردگی کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ حکمران اور اپوزیشن سیاستدان دونوں قومی اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ذاتی و گروہی مفادات کو قومی اور عوامی مفادات پر ترجیح دینے کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی کلچر منافقانہ اور شاطرانہ بن چکا ہے۔
عمران خان نے 2014ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف 126 دن کا دھرنا دیا تھا جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا تھا۔میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کی طویل عدالتی کارروائی جاری رہی جس کی وجہ سے حکومتی کارکردگی متاثر ہوئی۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان کی بڑی پارلیمانی جماعتوں نے عمران خان کو منتخب وزیراعظم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیا۔عمران خان کو اندرونی و بیرونی سازش کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا ۔ ہر چند کہ یہ کارروائی آئین کے مطابق کی گئی مگر تاریخ کے اس منفرد اقدام کے بعد پاکستان بھر میں غصے اور اشتعال کے جذبات پھیل گئے- پہلے میاں نواز شریف نے عسکری اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اس کے بعد عمران خان نے اپنے عوامی خطابات میں اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر سابق آرمی چیف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس سے سلامتی اور دفاع کے ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا -اس کی بڑی ذمے داری پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ پر عائد ہوتی ہے۔ سیاسی لیڈروں کی سیاسی گولاباری سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدلیہ بھی متاثر ہوئی۔پاکستان آج تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے بدقسمتی سے دہشت گرد ایک بار پھر سکیورٹی کے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بیرونی قرضے تشویش ناک حد تک بڑھ رہے ہیں جن کی وجہ سے ریاست کے ایٹمی اثاثے بھی خطرے سے دوچار ہونے لگے ہیں۔ پاکستانی سیاست اور جمہوریت کا مالیاتی بوجھ کھربوں روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سیاست دان سیاسی نظام کو عوامی فلاحی اور حقیقی معنوں میں جمہوری بنانے پر آمادہ نہیں ہیں اور وراثتی سیاست کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔ مریم نواز کی مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر کے طور پر حالیہ نامزدگی وراثتی سیاست کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔ ماضی کے انتخابات گواہ ہیں کہ موجودہ انتخابی نظام کے تحت اگر فوری انتخابات کرائے گئے تو پرانے روایتی چہرے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جائیں گے جنہوں نے پہلے بھی ریاست کو ناکام بنایا اور ایک بار پھر وہ ناکام بنائیں گے۔ جو سیاسی چہرے 2002ء سے 2023 ء تک پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام نہیں دے سکے ان پر مزید بھروسہ کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
بھارت پاکستان کو اندر سے توڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت 2030ء تک دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بن کر پاکستان کے لیے مزید خطرناک ہو جائے گا۔ پاکستان کے لئے وقت کم ہے اسے دو تین سال کے اندر معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہے ۔ محاذ آرائی کی سیاست ریاست کے لیے سکیورٹی رسک بن چکی ہے۔ پاکستان نے سیاستدانوں کو عزت منصب اور دولت سے نوازا ہے۔ ان کے لیے پاکستان کے مفاد میں دو سال کی قومی حکومت کوئی بڑی قربانی نہیں ہونی چاہیے۔چھوٹی کابینہ میں پارلیمانی جماعتوں کے اہل نیک نام محب وطن عوام دوست سیاستدان اور ٹیکنوکریٹس کو شامل کیا جائے۔ سیاستدان کرسی کی جنگ کی بجائے پاکستان کی بقا و سلامتی کی جنگ لڑیں۔ جمہوریت معیشت اور سکیورٹی کا 20 سالہ میثاق تیار کیا جائے۔ احتساب کا یکساں اور شفاف نظام وضع کیا جائے جو بِلا امتیاز سب کا احتساب کرے۔ سیاست کو سرمایہ سے الگ کیا جائے۔ انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائے جائیں تاکہ بکاؤ ایلیکٹیبلز کی بلیک میلنگ سے نجات مل سکے اور نیک نام پڑھے لکھے افراد کے لیے پارلیمنٹ کا رکن بننے کی گنجائش پیدا ہو سکے۔ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے اور لوکل باڈیز کے انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ کروائے جائیں ۔ سیاستدانوں کے لئے ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے۔ جمہوریت معیشت گورننس عدلیہ اور پولیس اصلاحات کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرکے اسے آزاد غیر جانبدار اور خودمختار بنایا جائے۔ پاکستان ہرگز نفرت تعصب انتقام اور اشتعال کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دو سال کی قومی حکومت کے قیام سے کھربوں روپے کی بچت ہوگی جو اراکین اسمبلی وزیروں اور مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات پر صرف ہوتے ہیں اور عوام اپنے بنیادی حقوق سے ہی محروم رہتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت کا تجربہ کبھی نہیں کیا گیا۔پاکستان اور عوام کی فلاح کے لیے اگر نیک نیتی کے ساتھ قومی حکومت کا تجربہ کر لیا جائے تو مثبت نتائج کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں اور پاکستان کو درست ٹریک پر چڑھایا جا سکتا ہے۔