
مہنگائی کا طوفان آگیا ، عوام کی چیخیں نکل گئیں، جب سے اخبار پڑھنا شروع کیا کچھ ایسی ہی خبریں آئے روز پڑھنے کو ملتی رہیں۔ لیکن اب ایسی سرخیاں دکھائی نہیں دیتیں یا کم کم ہی ملتی ہیں۔ شاید اب اخبار کی سرخیاں نکالنے والے بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اگر پہلے طوفان تھا تو اب کیا ہے ؟ طوفان تو کچھ عرصے میں تھم بھی جاتا ہے سالہا سال سے جاری یہ طوفان تو تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے تو پھر طوفان تو نہ ہوا ناں۔اور جہاں تک تعلق ہے چیخوں کا تو چیخیں تو تکلیف سے نکلتی ہیں اب تو لوگ مہنگائی سے مر رہے ہیں اور مرتے انسان کی تو آواز تک نکلنا بند ہوجاتی ہے۔تو چیخیں کیسی ؟ مہنگائی ویسے تو دنیا بھر کا مسئلہ ہے اور ہمارے یہاں شاید عمر بھر کا۔ لیکن یہ معاملہ کچھ اتنا پیچیدہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کی حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ ہماری سابقہ حکومت مہنگائی کو مجبوری کہتی تھی اور اب والے بھی کچھ یہی کہہ رہے ہیں۔ لیکن مہنگائی مجبوری کیوں بنی اس کی بھی اپنی وجوہات ہیں ،مہنگائی براہ راست عوامی مسئلہ تو ہے ہی لیکن ہم اسے سیاسی معاملہ بنائے رکھتے ہیں۔ اس پر خوب سیاست ہوتی ہے ، اپوزیشن میں بیٹھے حکومت والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور عوامی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں ، دیکھا جائے تو مہنگائی حکومتوں کی مجبوری ہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو حکمران سب کچھ سستا کرکے اپوزیشن کو نیچا نہ دکھاتے ،عوام کو خوش کرتے ، اپنا ووٹ اور حکومت پکی کرتے۔ سری لنکا میں بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا عوام کو خوش کرنے کی کوشش میں ملک کا دیوالیہ نکال دیا گیا لیکن ہر ملک میں مہنگائی کے اپنے اپنے محرکات ہیں۔ ہمارے یہاں کوئی حکومت مہنگائی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں لیکن حقیقت میں موجودہ حالات کی ذمہ دار ماضی کی تمام حکومتیں ہی ہیں۔ بہت سے معاملات یقیناً حکومتوں کی کنڑول میں نہیں جیسے پیڑول اور عالمی منڈی سے منسلک دیگر اشیا کی قیمتیں۔ لیکن خرچے کم کرنا اور بچت کی پالیسیاں بنانا ،اندرون ملک پیدا یا تیار ہونے والی اشیا کی مناسب قیمتوں پر دستیابی یقینی بنانا تو حکومتوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ کسی بھی سرکاری محکمے کو لیں جہاں ایک کی ضرورت ہے وہاں چار چار بیٹھے ہیں بلکہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور سرکاری خزانہ ان کی تنخواہوں کا بوجھ اٹھاتا جارہا ہے اور پنجابی کی کہاوت کے مطابق داڑھی سے مونچھیں بڑی ہوچکی ہیں۔ اب ان محکموں کی رائیٹ سائزنگ ہو یا ڈاؤن سائزنگ ، لوگ نکالے جائیں تو بھی سیاسی مسئلہ ،کون سا سیاست دان یا جماعت یہ سب اپنے سر لے گی۔ پھر افسران کی مراعات دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کہ یہ شدید معاشی مشکلات سے دوچار ملک کی سرکار کے ملازم ہیں، کچھ ہم کر نہیں سکتے اور کچھ کرنا نہیں چاہتے اور بات آج یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سب کچھ ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے کوئی بھی حکمران آجائے یا کسی بڑے سے بڑے معیشت دان سے رائے لے لیں اس معاشی بحران سے نکلنے کا واحد حل وہی آئی ایم ایف ٹھہرتا ہے ،جو ہمیں وہی کچھ کرنے کا بار بار کہتا آرہا ہے جس سے ہم جان چھڑانے چلے آرہے ہیں۔ یعنی خرچے کم کرکے بچائیں اور ٹیکس لگا کر کمائیں اور ملک چلائیں۔ بچت کے ہم عادی نہیں رہے اور ٹیکس لگائیں تو سیاسی نقصان۔ یہی ہماری حکومتوں کی اصل مجبوری ہے۔ اب آگے کھائی پیچھے گڑھا، آئی ایم ایف کی مانیں تو سیاست گئی اور نہ مانیں تو ریاست۔ اور آئی ایم ایف ڈیل نہیں کرتا تو کوئی دوسرا ملک یا عالمی ادارہ بھی تو مدد کو تیار نہیں ہوگا۔ تو اب کوئی چاہے یا نہ چاہے مہنگائی در مہنگائی تو ہونا ہی ہے رعایت صرف اتنی مل سکتی ہے کہ سب کچھ ایکدم مہنگا نہ کیا جائے بلکہ مرحلہ وار ہو جائے، مہنگائی معاملہ تو معاشی ہے لیکن ہمارے لے لئے تو یہ شماریاتی معاملہ ہے سارا دن جمع تفریق بلکہ جمع تو کچھ ہوتا نہیں بس تفریق کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ اور قیمتوں اور خرچوں کی ہر وقت کی گنتی نے قوم کو کم از کم حساب کتاب کاتو ماہر بنادیا ہے۔ تو اب عوام کمر کس لیں۔ سب کو اب خود ہی حالات کا مقابلہ کرنا۔ حکمرانوں کو برابھلا کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کرلیا لیکن جو بل آیا پڑا ہے وہ تو بھرنا ہی ہے۔ آٹا روٹی مہنگی ہے لیکن کھانی تو ہے۔ حکومتوں سے امید نہ رکھیں ان کے پاس واحد حل مزید مہنگائی ہی ہے۔ زندہ رہنے کے لئے خود ہی حالات سے لڑنا ہے، واحد راستہ ہے اخراجات میں جہاں ممکن ہو کمی۔ ایک پیسہ بچایا مطلب ایک پیسہ کمایا۔ یہی اصول اپنایا جاسکتا ہے،بنیادی ضروریات (necessities )پوری کرنے کی کوشش کریں، پھر لوازمات (Accessories) پر آئیں کہ کہاں گنجائش نکل سکتی ہے اور آسائشوں (luxuries ) کو تو فی الحال بھلا ہی دیا جائے تو بہتر ہوگا، یہی ان حالات میں دنیا بھر میں اپنایا جانے والا بنیادی اصول ہے۔ تو حکومتوں کے مشکل فیصلوں کا مقابلہ کچھ اپنے مشکل فیصلوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ اور مشکل وقت میں یہی مشکل فیصلے زندگی کو کچھ آسان بلکہ یوں کہیں کہ زندگی ممکن بنا سکتے ہیں۔
٭…٭…٭