
میرا ایک شعر ہے :
انا الحق کہہ کے جو منصور ہوا
سولی چڑھنا تو پھر ضروری تھا
کل کی ایک تازہ خبر نے اپنے ملک کے لئے میرے مان، میرے ایمان اور یقین کے پڑخچے اُڑا دئیے ہیں۔ اِس لئے اپنے زخموں کا موجب بننے والے مجرموں کو مَیں بھی اپنے قلم کی تلوار سے ضرور زخم لگاؤں گی کیونکہ پیغمبرخدا نے بھی وضاحت کردی ہے کہ جان کے بدلے جان، آن کے بدلے آن۔ بہرحال پہلے خبر پڑھ لیں۔
چاردن تک آٹا حاصل کرنے میں ناکام ایک والد نے 15 پر ایمرجنسی کال دے دی جب عملہ وہاں پہنچا تو وہاں کوئی ایمرجنسی یعنی جاں بہ لب مریض یا آتشزدگی کی کوئی صورتحال نہ دیکھ کر عملے نے اُس گھر کے مکین ایک نحیف و نزار آدمی سے جو چٹائی پر اپنے تین بچے لٹائے بیٹھا تھا ، کال کی وجہ سختی سے پوچھی تو اُس نے سامنے پڑے تین بچوں کی طرف اشارہ کرکے صورتحال واضح کی کہ ’’یہ بھوک سے ‘‘ بے ہوش ہیں۔ عملے نے جو پہلے ذرا غصے میں تھا اُن بچوں پر نظر ڈالی تو زاروقطار روتے ہوئے آٹا لینے بھاگ گئے (مجھے یقین بمشکل آیا) بہرحال شاید اُن کے سینے پر سجی نیم پلیٹ پر اُن کے نام کی بجائے ’’انسان‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ کہانی ریاست کے اُس وارث کی ہے جس کا سلطان بااختیار رات کی تاریکی میں اَناج کی بھاری بوری اپنی پیٹھ پر لاد کر اپنے ضرورتمندوں کی دہلیز پر رکھ آتاتھا۔
میرے آباؤاجداد حصولِ وطن کی جو خونچکاں کہا نیاں سناتے تھے اُس کے مطابق تو ہم اِس ملک کو ایک قیمتی زیور کی طرح اطلس و کمخواب کے ڈبوں میں احتیاط سے رکھتے کہ کہیں ٹوٹ پھوٹ نہ جائے مگر بااختیار اَور طاقتور سلاطین نے تو اِسی وجود پر کلہاڑے برسائے جس سے اُس کا ایک بازو کٹ کر دُور جاپڑا اَور وہ معذور ہوگیا۔ قوم کے ناتواں باپ قائداعظم نے جس بہادری اَور جرأت سے انگریز شیروں کے کچھار میں اپنا کمزور ہاتھ ڈال کر اِس ملک کو کھینچ کر باہر نکالا انسانی تاریخ ابھی تک حیرت زدہ ہے۔ مگر ہم نے 75 سالوں میں کبھی اِسے شیروں کے منہ میں ڈال دیا جو اپنے ہی لوگوں کو لقمہ لقمہ کرکے چباتے رہے۔ شاید اُن سے غلطی ہوگئی انہوں نے شیر کو طاقت کی علامت سمجھا حالانکہ یہ خونخواری کی علامت ہے۔ پھر ایک اور مغرور اور خودپرست سلطانِ اعظم تشریف لائے جس نے اپنے آپ کی پیپلزسے ہمنوائی کا دعویدار بنایا ،مگر آقا اور غلام کا فاصلہ برقرار رکھا اَور کسی بھی غلام کی ہلکی سی بے پروائی یا گستاخی پر اُسے مرچوں کی دھونی دے دیتا اَور اُس کے خانوادے نے ریاست کو زریں تشتری میں رکھ کر ایک زردار کے حوالے کردیا۔ زرپرستی اُس کے خون میں دوڑتی تھی اِس لئے زر اُس کی آنکھوں میں پتلی کی مانند فکس ہوگیا اور اُسے اِس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا ۔ پھر ایک ڈھول سپاہی نے لمبی چھلانگ لگا کر قائداعظم کی مسلم لیگ کو ہی اُچک لیا اَور اپنے سینے پر مسلم لیگ قائداعظم کا تمغہ سجالیا پھراپنے لمبے چوڑے محلات میں وسیع و عریض دستران بچھا کر اَورغریبوں کو کھا نا کھلا کر ساری قوم کو فقیر بنادیا ۔
پھر کچھ اہل ِ قرآن اپنے قول و فعل میں شریعت کی دھجیاں بکھیرتے بصورتِ اذان گونجنے لگے لوگ اذان کے طلسم میں گرفتار اِن کے ہاتھ چومنے لگے جو ہر وقت حلوے کے اصلی گھی میں تر بتر رہتے تھے اور میرے بھولے اَور بے شعور لوگ اُن کے سَر کے عمامے اَور کندھے پر پڑے دسترخوانی رومال کو خلفائے راشدین کالبادہ سمجھ کر عطر ِ گلاب چھڑکنے لگے۔ پھر فٹبال کا چہرہ لئے ایک اجنبی اپنے ملک کے مہاجرین کی صف میں گھُس گیا اَور اُن کے انہونے اور بے معنی مطالبات سے فٹبال کی طرح کھیلنے لگا اور دہشت گردمولی گاجر کی طرح اُگنے لگے۔آخرمیں ایک کھنلڈرا اپنے ملک کے کارزار میں کود آیا بے خطر۔اُس کا مسیحائی کا دعویٰ اِس لئے بھی کچھ سچا لگا کیونکہ جن حالات نے اُسے میدان کارزار میں دھکیلا تھا وہ اصلی اور سچے تھے ۔ اُس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ دولت اور شہرت کا مالک ہونے کے باوجود جب والدہ کی مہلک بیماری کی وجہ سے ہسپتالوں کے چکر لگارہاتھا تو اُسے ایک عام آدمی کی تکلیف کا ادراک ہوا اَور اُس نے اُسی وقت اِ ن لوگوں کو انصاف دلانے کا ارادہ کیا اور جب اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ میں تبدیل کر کے رہے گا تو میں نے اِسی دعوے پر شدت جذبات میں کالم لکھا ،عنوان تھا’’چلو آؤ آؤمدینہ چلیں‘‘ میں نے اُس کا لم میں ریاست ِ مدینہ کے سارے نقش و نگار قرآن حکیم کی روشنی میں واضح کئے تھے ۔
پھر ایک کالم انگریزی میں لکھا جس کا عنوان تھا" A Letter from Quaid-e-Azam to Imran Khan میں نے قائداعظم کی زبان میں عمران خان کو کچھ نصیحتیں اور وضاحتیں دی تھیں۔بہر حال اگر عمران خان نے قوم کو فی الحال کچھ دیا نہیں تو لیا بھی کچھ نہیں۔ جب وہ چوروں کو پکڑنے کے لیے اُن کے پیچھے دوڑرہاتھا تو لوگوں نے محاورتاً اُس کی ٹانگ ہی توڑ دی۔ اُس کے ساتھ المیہ یہ ہو اکہ مسیحائی کے اِس دعویدار کی جیب میں سارے کھوٹے سکے اُچھل کر بیٹھ گئے اُس کے سارے وزیر مشیر امیر تھے جو محرومی اور غربت کے ذائقے سے ناآشنا تھے۔ وہ اِن کھوٹے سکوں کی پرکھ میں مصروف تھاکہ کسوٹی ہی توڑ دی گئی۔ ملک اَب ایک مذبح خانے میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں قربانی کے جانوروں کو اُن کے ہاتھ پیر رسوں سے باند ھ کر ذبح کیاجاتا ہے۔ یہ سب واقعات اَب خاموشی اَور بے بسی کے احساسات سے آگے نکل کر غیرت کے زون میں داخل ہوگئے ہیں اَور غیرت تو بڑا طاقتور جذبہ ہے جہاں غیر ت کے نام پر لوگ بعض اوقات اپنی حد سے بھی گزر جا تے ہیں اور سر خروئی کے وکٹری سٹینڈ پر ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
٭…٭…٭