
ٖFahmida Kousar3
افلاطون نے جب خوف سے جکڑی ہوئی ریاست کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے مثالی ریاست کا نظریہ پیش کیا تو اس نے بتایاکہ جب تک فرد گروہ معاشرہ یا ریاست اپنے اندر سے ناکامی محرومی شکست اور خودساختہ بنائے گئے معیار سے باہر نہیں نکلتی اور وہاں کا حکمران گرکر کھڑا ہونے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو وہ کبھی ڈراور خوف سے نہیں نکل سکتا ہے فرائیڈ نے خوف کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے اس خوف کے بت کو خوفناک قرار دیا ہے جس میں ناکامی اسے ہیولہ بن کے ڈراتی ہو اور کسی بھی ریاست کاحکمران اس ناکامی کے مقابلے کی بجائے اسکو مختلف حیلوں سے دبائے۔ شیخ سعدی کی ایک کہاوت ہے کہ ایک ریاست کا والی اپنے مصاحبوں کے ہمراہ دریا میں کشتی کی سیر کے لئے روانہ ہوا جب کشتی روانہ ہوئی تو ایک شخص نے زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ والی کاسارامزہ خراب ہوگیا۔ اس نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کے مشیرخاص نے مشورہ دیاکہ اے ریاست کے فرماں روا ناحق خون نہ جلائیں۔ اس مسئلے کاحل میرے پاس ہے۔ سانپ بھی مرجائیگا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی۔ مشیرخا ص نے کہا اس شخص کو پانی سے ڈر لگتا تھا۔ اس کو پانی میں چھ سات ڈبکیاں لگائیں بعد میں وہی شخص سکون سے کشتی کے ایک کونے میں جابیٹھا۔ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہوگیا سانپ تونہ مرا لاٹھی ٹوٹ گئی۔ غربت اور مہنگائی کا عفریت اسی طرح دندناتا پھر رہا ہے جسکا سدباب نہ ہوسکا اور نہ ہی ہم نے اسکے حل کیلئے سوچا ۔ ایک طالبہ کوجب مہنگائی پر ایک مضمون لکھنے کو کہاگیا تو اس نے لکھاکہ میراابامزدور ہے، دن رات کام کرتا ہے، میرا جوتا ٹوٹ گیا، مجھے ہرروز اسمبلی میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ابا کہتاتھا کہ مہینے کے آخر تک جوتا لے دوں گا لیکن مہینے کے آخرتک وہ پیسے بجلی کے بل کی نذر ہوگئے۔ اب ا با کہتا ہے کہ اگلے مہینے کے آخر میں جوتے لے دوں گا لیکن اگر اگلے مہینے جوتے آگئے تو بل کیسے ادا ہوگا آخر میں اس طالبہ نے لکھاکہ جس ملک میں جوتے تک نہ خریدے جاسکیں تو وہاں مہنگائی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ بظاہر یہ ایک عام سا واقعہ ہے لیکن اپنے اندر ایک تلخ حقیقت چھپائے ہوئے ہے ۔ہیگل کانظریہ ہے کہ ریاست کی مضبوطی عوام کے حقوق کی ادائیگی ہے وگرنہ عوام کوبالائے طاق رکھ کر طاقت کا حصول ایک خوف میں جکڑی ہوئی ریاست کے سوا کچھ نہیں۔ ریاست کی زندگی میں خوف اسوقت داخل ہوتا ہے جب غیر آئینی طریقوں سے حکومت کے معاملات سر انجام دئیے جائیں۔ تب بقول ہیگل ریاست اندر کے خوف کو چھپانے کے لئے فاشسٹ ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے ۔ظہیرالدین بابر مغلیہ ریاست کافرمانروا تھا وہ طاقت اور عظمت کا اس قدر قائل تھا کہ قلعے کی دیواروں پر دو آدمی بغل میں دبائے دوڑا کرتا ۔ تاریخ نے یہ توبتایا کہ اس جیسا بہادر کوئی فرمانروا تاریخ میں نہیں ہوا لیکن کسی نے ان دو آدمیوں کااحوال رقم نہیں کیا جوفرمانرواکی بغل میں ہوتے تھے۔ اس موقع پر کوئی داناوزیر یہ بھی مشورہ دیتا کہ اپنی دھاک بٹھانے کے لئے آدمیوں کی تعداد بڑھالیں۔ تو فرمانرو ا اسکے مشورے پرضرور عمل کرتا۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ فرمانر وا واقعی اپنی دھاک بٹھانا چاھتا تھا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ خوشامدی وزرأ ہردور میں موجود رہے ہیں۔ ایک مرتبہ محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز کو آدھا پھل کاٹ کردیا۔ وہ ایاز کوبہت پسند کرتا تھا جب محمودغزنوی نے کچھ پھل کھالیا تو اسے اندازہ ہوا کہ پھل توترش اورکڑوا ہے اور ایاز مزے سے کھا رہا ہے۔ اس نے سوال کیاکہ ایاز تمھیں اندازہ نہ ہوا کہ پھل توکڑوا ہے ۔اس پر ایاز نے کہا کہ آپ کی محبت نے کڑوے پھل کو بھی میٹھا کردیا تھا ۔تاریخی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ دودن محمود غزنوی اور ایاز بیمار رہے ایک مزاح نگارنے لکھا کہ ایاز بادشاہ کی محبت میں یہ بتا دیتا کہ پھل کھٹا ہے تو بات خرابی صحت تک نہ پہنچتی۔ ہمارا بھی یہی المیہ ہے خرابی ٔمعاشرت ہو یا معیشت ،ہم اصل حقائق دکھانے کی بجائے وہ دلکش نظریات پیش کرتے ہیں جو صفحوں پر تو خوبصورت دکھائی دیتے ہیں لیکن کسی عملی سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتے۔