قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں کشمیر پر مشترکہ قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا، 19 نکاتی قرارداد کے ذریعے بھارت سے مقبوضہ کشمیر سے فوجیں نکالنے، سیاہ قوانین منسوخ کرنے، مقبوضہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسٹیٹس بحال کرنے، ملٹری آبزرورز، ارکان پارلیمنٹ، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور میڈیا کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، گرفتار اور نظربندحریت رہنماؤں سید علی گیلانی، شبیر احمدشاہ، یاسین ملک، عمر فاروق، آسیہ اندرابی اور دیگر کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کشمیری رہنماؤں کی نظربندی اور پابندیاں ختم کرنے، 180 دنوں سے جاری بھارتی محاصرے سے کشمیریوں کو نجات دلانے کے مطالبات کئے گئے ہیں، کشمیر کے حوالے سے قومی اسمبلی کی دو روز تک خصوصی کارروائی ہوئی، اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا، چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے حکومت و اپوزیشن کی مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کی۔ یہ قرارداد پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے پیش کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی افواج کی موجودگی کے باعث مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بن کر رہ گیا ہے۔ بھارتی مظالم افواج کی بربریت، تشدد، پیلٹ گنوں کے استعمال، اغوائ، گھروں پر حملے بچوں اور خواتین کو ہراساں کرنے، ہزاروں نوجوانوں کو غائب کرنے، سیاہ قوانین، کرفیو، محاصرے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حق خودارادیت کی تحریک کے حوالے سے مظلوم کشمیریوں بالخصوص بچوں اور خواتین اور بزرگوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق واضح کیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر آج بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ حق خودارادیت کی راہ ہموار کرنے کے لئے ملٹری آبزرور مقبوضہ کشمیر بھجوائے جائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، ارکان پارلیمنٹ اور میڈیا کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دی جائے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی برادری نوٹس لے۔ آبادی کی پوزیشن کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں پر یہ ایوان اظہار تشویش کرتا ہے۔ پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کے بھارتی قوانین کو منسوخ کیا جائے۔ لاک ڈاؤن ختم کیا جائے، ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے۔ او آئی سی کا خصوصی سربراہ اجلاس کشمیر کے حوالے سے طلب کیا جائے۔ قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ ارکان کی بھاری تعداد ایوان میں موجود تھی۔ بحث کے دوران اپوزیشن کی طرف سے کشمیر پر خارجہ اور سفارتی پالیسی کو غیرموثر قرار دیتے ہوئے اس پر نظرثانی کا مطالبہ کر دیا گیا ہے قراردادمیں واضح کیا گیا ہے کہ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے اس کی ممکنہ جارحیت کے خلاف پوری قوم متحد ہے ۔ منگل کوقومی اسمبلی کا اجلاس بوقت 11 بجکر20 منٹ پر اسد قیصر سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بحث میں ارکان نے حصہ لیا ۔بزرگ رکن سردار نصر اﷲ دریشک نے کہا کہ آئینی ترامیم ہوں، ارکان اسمبلی کی تنخواہوں کا معاملہ ہو یا آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسئلہ ہو تو یہ ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے مگر آج جب کشمیر کے موضوع زیر بحث ہے تو حاضری کی صورتحال پریشان کن ہے۔ ہمیں اپنی شہ رگ کے لیے یکجہتی اختیار کرنی چاہیے، ہماری یکجہتی کا عالم یہ ہے کہ مشرف نے نیب کا ایکٹ بنایا مگر زرداری اور نواز شریف نے اس پر عمل کیا کیونکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف یہ قانون استعمال کرنا چاہتے تھے اب نیب قانون کے دائرہ سے تاجروں،سرکاری افسروں کو نکالا جا رہا ہے،سیاستدانوں کو جب چاہیں پکڑ سکتے ہیں کشمیر کے حوالے سے ہمیں بھر پور یکجہتی کی ضرورت ہے ہمیں اس معاملے پرفوراً کوئی عملی قدم لینا چاہیے ورنہ لمحوں کی خطا پر صدیوں کو سزا ملتی ہے۔ایم ایم اے کے رکنمفتی عبد الشکور نے کہا کہ کشمیر ہندو اور مسلم کا مسئلہ نہیں ہے تمام ہندو مودی کی طرح نہیں ہیں یہاں اگر کسی اقلیتی شہری پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو ہمارے دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے نا قابل برداشت ہے عالمی ادارے کہاں ہیں؟ ہمیں اپنے مظلوموں کی طرف سے دھیاں دینا ہوگا قبائلی علاقوں کے لوگ احتجاج کررہے ہیں جب ہم ان کی طرف دھیان نہیں دیتے تو مودی وغیرہ کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے۔ہمارا ایک وزیر کشمیر کے موضوع پر اتحاد کی فضاء کو خراب کرنے کے لیے اپنی تقریر میں آزادی مارچ کو لے آئے کچھ لوگ فرقہ واریت پھیلانے کے لیے ٹی وی پر آتے ہیں ان لوگوں پر نظر رکھیں۔ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک بنائے جائیں اور دنیا بھر میں پارلیمانی وفود بھجوائیں اور بھارتی مظالم کا چہرہ دنیا کو دکھائیں۔وزیرانسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں ایک وزیر اعظم ہندوستان گئے تو پہلی مرتبہ اے پی ایچ سی سے نہیں ملے بلکہ بھارتی بزنس کمیونٹی سے ملے۔ سابقہ حکومتیں بھارتی بیانیہ کو مسترد نہیں کرا سکیں ہیں وہ پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست کہتے تھے۔ ہماری حکومت نے پہلی مرتبہ یہ بیانیہ ختم کیا اور دنیا کو بتایا کہ بھارت آر ایس ایس کے ذریعے دہشت گرد کررہا ہے۔ یو این او کی سیکیورٹی کونسل میں دو میٹنگز میں مسئلہ کشمیر پر بات کی۔ یورپی یونین میں بھی مسئلہ کشمیر پر بحث ہورہی ہے تاہم ابھی تک بہت کچھ کرنا ضروری ہے،کہا جاتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے دنیا بھر میں پارلیمانی وفود بھیجے مگر ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ دنیا نے ہمارا بیانیہ تسلیم نہیں کیا ۔ہمیں پارلیمانی وفود بھیجنے چاہیں مگر اراکین پارلیمنٹ کو حقائق سے آگاہ کر کے بھیجنا چاہیے۔ ہماری حکومت نے فارن آفس پالیسی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پالیسی کو بھی استعمال کیا ہے ۔پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پالیسی کو بھی استعمال کیا ہے ۔پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں ہیومن کاریڈور بنانے کے لیے بھی عالمی ادارے کو متحرک کیا ہے ۔اپوزیشن کو شاید حکومتی اقدامات کا علم نہیں یا وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے۔ہمیں تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے 1948ء میں بھارت مسئلہ کشمیر کو چیپٹر 6کے تحت لے کر گیا تھا جس کے مطابق پاکستان ایک حملہ آور نہیں بلکہ مسئلہ کا فریق ٹھہرتا ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے اس ایشو کو نہیں اٹھایا تھا ہم اس پر توجہ دے رہے ہیں ۔ایسٹ تیمور اور مسئلہ کشمیر کی قراردادیں ایک جیسی ہیں ہم اس کو بھی اٹھا رہے ہیں ۔بدقسمتی سے ہمارے اداروں نے وزیراعظم کے بیانیہ کو بیک اپ نہیں کیا۔ وزیراعظم نے ہر جگہ کشمیریوں پر مظالم کی مذمت کی ہے ۔ہمیں اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ایل او سی پر بھارتی جانب امن دستہ تعینات کرے۔ہماری جانب تو ان کی تعیناتی ہے کشمیر کی ایک ڈائریکٹری بنانی ضروری ہے جس میں طے ہو کہ کون سے کشمیری استصواب میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ بھارتی فوج کو کشمیر میں غیر مسلح کرنا ہوگا ہمیں فوری طور پر یو این جنرل اسمبلی میں آئی سی جے میں جانے کے لیے قرارداد پیش کرانی ہو گی تاکہ ہم بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپنا کیس لے کر جا سکیں۔علی گوہر نے کہا کہ کشمیری قوم کی قربانیاں ایک روز ضرور رنگ لائیں گی مودی نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا اور 370A کو ختم کیا اوراس کی آزاد حیثیت کو ختم کیا ہمارے نیازی صاحب جب امریکہ گئے تو مودی نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا اور ہمارے وزیراعظم نے کامیاب دورے کا جشن منایا۔ دوسری طرف مودی نے کشمیر مسلمانوں پر مظالم کا جشن مانایا حکومت نے بھارت کے اقدام پر کوئی اے پی سی نہیں بلائی مگر جب مسئلہ کشمیر پر مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا تو اپوزیشن تمام اختلافات سے بالا تر ہو کر اجلاس میں شامل ہوئی آج کشمیر کے حوالے سے سرکاری خرچ پر حکومت نے جو تصاویر چوکوں پر چوراہوں پر لگائی ہیں ۔ڈاکٹرشہناز بلوچ نے کہا کہ ہم صرف تقاریر کرتے ہیں مسائل حل نہیں کرتے۔ 72 سال ہوگئے ہم نے بلوچستان کے مسئلہ کو حل نہیں کیا ۔فاٹا کے مسئلہ کو بھی توجہ نہیںدی ہمارے ملک میں بھوک ،جہالت ہے ہم اگر اپنے اندرونی مسائل حل نہیں کریں گے تو شاید ہم کل کو بلوچستان اور فاٹا کے بارے میں بھی ایسے ہی بات کررہے ہونگے مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور اپنی گزشتہ کوہتاہیوں سے سبق لینا ہوگا۔وزیرسائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے پورے ہائوس کی کمیٹی بنانی چاہیے ۔جہاں ڈاکٹر ظفر ہائوس کو مکمل بریف کریں اور دیکھا جائے کہ چین سے ہمارے طلبہ کو واپس بلانا چاہیے یا نہیں؟مہنگائی کے حوالے سے بھی ہائوس کو آگاہ کرنے کے لیے ایسی ہی کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے۔مودی نے دہلی میں جلسہ میں کہا کہ ہم دس دن میں پاکستان کو ملیا مٹ کر دیں گے ۔ میںکہتا ہوں کہ آپ ایسی بات نہ کریں پہلے بھی ہم نے آپ کے رات کے اندھیرے میں ہونے والے ایکشن کا جواب دن کی روشنی میں دیا تھا اگلی مرتبہ ہم آپ کو چائے پیش نہیں کریں گے ۔امن کے لیے ہماری کوششوں کو کمزوری نہ سمجھا جائے ہم عزت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہمارا دل صرف کشمیریوں کے لیے نہیں بلکہ بھارت میں مقیم تمام مسلمانوں کے لیے رو رہا ہے آج کے اقدامات سے لوگوں کو علم ہو گیا ہے کہ قائد اعظم کتنے بڑے ویژنری لیڈر تھے۔ بھارت میں فریج میں گوشت رکھنے کے الزام میں لوگوں کو جلا دیا جاتا ہے وہاں ایک بہت بڑی مذہبی انتہاء پسند جماعت کی حکومت ہے کشمیر میں دو سو دن سے زائد ہو گئے ہیں کہ وہاں انٹرنیٹ اور آزاد میڈیا پر پابندی ہے تاہم انڈیا میں جالب اورر فیض احمد فیض کو گنگنایا جا رہا ہے۔ آج ہمارے ملک میں حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہے خواجہ آصف کچھ باتیں کی ہیں ن پر مجھے تحفظات ہیں خواجہ آصف وزیراعظم کے امیدوار ہیں اس کے لیے وہ اپنا پروفائل بنانا چاہ رہے ہیں۔ تاہم میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان ہی ہے اور وہی رہیں گے۔پی پی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا اتفاقی طور پر نہیں رکھا گیا یہ جان بوجھ کر انہوں نے رکھا جن سے ہم آج ثالثی کی امید رکھ رہے ہیں ہم بہت اچھی تقاریر کررہے ہیں اور کرتے رہے ہیں حکومتی جماعت کہتی ہے کہ ان کے وزیر نے بہت زبردست تقریر کی میں کہتا ہوں کہ میرے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور میری شہید بے نظیر بھٹو نے کشمیر کا مقدمہ بہت بہترین انداز میں پیش کیا۔ اس مرتبہ یوم کشمیر مناتے ہوئے ہم اتنے بے باک نہیں ہیں جتنے پہلے ہوتے تھے ایسا کیا ہوا کہ بھارت ہماری سرحدوں پر جہاز اکٹھے کررہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے میں اپوزیشن کے لیڈران سے کشمیر پر بات نہیں کی مگر بھاگ کر ٹرمپ کے پاس جاتے ہیں کہ وہ ہماری ثالثی کرائے کیا ٹرمپ اب ثالثتی کرائے گا میں کوئی اختلافی بات نہیں کی نہ چاہتا ہوں مگر وزیراعظم کیوں دعا کرتے تھے کہ مودی جیت جائے لو وہ جیت گیا ہے اب اس نے مسلمانوں پر مزید ظلم کر دیا ہے۔ہمارے ایوان میں ایسے اختلافی قوانین بنائے جا رہے ہیں جن پر ہمیں تحفظات ہیں۔ ہمارے ہاتھوں سے ہماری گردن پر FATF کی تلوار لٹکا کر ہم سے ایسے قوانین منظور کرائے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جنہوں نے کشمیر کا ایجنڈا نامکمل چھوڑ دیا۔ ٹرمپ سے ثالثی کی بھیک نہ مانگیں۔ وہ تو افغانستان سے بھاگنا چاہ رہا ہے اس لئے آپ کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔ وہ مسئلہ حل نہیں کرے گا۔ آپ تسلیم کریں کہ آپ کی خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔ آپ کے دور میں کشمیر بھارت کا حصہ بن گیا۔ ہم پر ہوائی حملہ ہوا اور ہم نے پائلٹ واپس کر دیا۔ بھارت میں مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں۔ یہ سب بھی آپ کے دور میں ہو رہا ہے۔ میں نے کسی عالمی فورم پر وزیراعظم کے منہ سے یہ بات نہیں سنی کہ بھارت دہشت گرد ملک ہے۔ صرف یہاں بات کی جاتی ہے۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتی مگر کشمیر صرف باتوں سے حاصل نہیں ہو گا۔ ایم کیو ایم کی کشور زہرا نے کہا کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے ہمیں اپنی حکمت عملی ایسی رکھنی چاہئے کہ ان کا چہرہ سامنے آ جائے۔ ہمیں یہود و نصاریٰ کے فنڈز پر پلنے والی این جی اوز کو پابند بنانا چاہئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کا جھنڈا بھی لگائیں۔ مفتی عبدالشکور نے درست کہا کہ ہمیں اختلافی مسائل میں نہیں الجھنا چاہئے۔ اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ جب سوات اور مالاکنڈ میں ایک صورتحال پیدا ہو گئی تو ہاؤس میں بحث ہوئی۔ ایبٹ آباد واقعہ پر بھی اس ہاؤس میں ان کیمرہ سیشن بلایا گیا تلخ سوال و جواب بھی ہوئے مگر موجودہ وزیراعظم نے اپوزیشن سے ملنا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔جن پر ہم نے اعتماد کیا اور ان سے ثالثی کی امید کی۔ وہ ایک جلسہ میں مودی کے ساتھ امریکہ میں شریک ہوئے۔ کشمیر کے حوالے سے ہم ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہم جنگ کی حمایت نہیں کرینگے لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی اور ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ رہا تو پھر صرف پاکستان کی بات ہو گی۔ سیاسی وابستگی نہیں ہو گی۔ تحریک انصاف کی نورین فاروق نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین اور بچوں کے ساتھ ظلم ایک معمول بن گیا ہے۔ کشمیری عوام پر ظلم ڈوگرہ راج سے برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو چاہئے کہ پوری دنیا کی توجہ کشمیر پر مرکوز کروائیں۔ ہمیں صرف یوم یکجہتی سے آگے بڑھ کر کشمیریوں کی حمایت کرنا ہو گی۔ وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے 180 دنوں سے جاری بھارتی محاصرے کی مذمت کی اور کہا کہ آج کشمیر میں ہونے والے ظلم و تشدد پر کوئی بولنے والا بات کرنے والا نہیں ہے۔ جان بوجھ کر اس تنازعے کو برقرار رکھا گیا تاکہ دونوں ملک لڑتے رہیں کشمیریوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہم سب کشمیر کے لئے متحد ہیں۔ پیپلزپارٹی کی رہنما ناز بلوچ نے کہا کہ دل کشمیریوں کے لئے دھڑکتے ہیں تقاریر سے بات آگے بڑھنی چاہئے۔ سات دہائیوں سے تقاریر ہی سن رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کشمیر پر صرف یہ پالیسی ہے کہ جمعہ کو آدھا گھنٹہ احتجاج کرنا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے پارلیمانی رہنما اسعد محمود نے کہا کہ کشمیر پر حکومت کی خاموش احتجاج کی پالیسی ہے۔ دنیا بھر کو جگانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ہر اول دستے کا کردار ادا کرے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما انجینئر خرم دستگیر نے کہا کہ حکومت کی کشمیر کے حوالے سے پالیسی کنفیوژن پر مبنی ہے۔ کسی عملی اقدام کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیر کے حوالے سے حکومت کی غیرموثر اور کمزور پالیسی اور اقدامات ہیں۔ اس حوالے سے خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024