تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی اللہ کریم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حکم دیا اور یہ بھی بتادیا کہ میں اپنے بندے سے ستّرمائوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں اور خبردار کیا کہ حقوق اللہ کی معافی ہو سکتی ہے مگر حقوق العباد کی معافی نہیں ہے۔اگر ہم کبھی غور کریں اور وجہہِ بربادی سکون ِ قلب پر غور فرمائیں تو وہ صرف اور صرف اسلام سے دوری ہے۔ جب انسان اللہ کریم کو راضی کرنے کی بجائے دنیا اور دنیا کے بادشاہوں کو راضی کرنے چل پڑے تو وہ کم از کم اپنی منزل سے بھٹک جاتا ہے اور در بدر ہو کر رسوائی اٰس کا مقدر بن جاتی ہے۔دولت اور عہدے کا غرور برباد کر دیتا ہے ۔ غرور اور تکبر خالقِ کائنات کو ہر گز پسند نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی کو زیبا ہے۔ اور ہاں اگر کوئی انسان اپنی عبادت پر بھی تکبر کرے تو اس کی بھی ہر گز معافی نہیں ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ بدل گیا۔ انسان انسانیت سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ انسانیت کے اوپر حیوانیت کا غلبہ ہوتاجا رہا ہے ۔ اسی لیے عزت اور ادب و احترام کی کمی اور ظلم اور جبر پروان چڑھتا نظر آتا ہے ۔ کیا مہذب معاشروں کا یہ شیوہ ہے کہ اپنے مفادات کیلئے دوسرںکا گلا کاٹ دیا جائے اور محافظ ہی لٹیروں کا روپ دھار لیں۔ مظلوم کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہو ۔ چھوٹے چھوٹے معصوم فرشتوں کے ساتھ ریپ کر کے انھیں قتل کر دیا جائے اور لاشوں کو بھی چھپا دیا جائے اور پھر اللہ کا کرم بھی تلاش کیا جائے یہ کیسے ممکن ہے ؟ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ آقا کریم ﷺ کے امتی ہونے کی وجہ سے ہم محفوظ ہیں وگرنہ پہلی قوموں کی طرح ہم پر بھی اللہ کا عذاب آتا اور ہماری شکلیں بھی بدل جاتیں۔ کبھی ہم نے غور فرمایا ہے کہ ہمارے اندر غیرت ِمسلم زندہ ہے یا دم توڑ رہی ہے ۔ اور شاید میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج غیرت ِ مُسلم سسک نہ رہی ہوتی تو کشمیر میں اپنی کشمیری بہنوں بیٹیوں کی آہوں کا ہم پر ضرور اثر ہوتا اور ہم وقت ِجہاد سے چشم پوشی اختیارکر کے دنیا کے مشاغل میں نہ کھوئے ہوئے ہوتے۔ اگر ہمارا ضمیر زندہ ہوتا تو بڑے عہدے حاصل کر کے اور بادشاہوں کی قربت میں بیٹھ کر قو م کیلئے آٹا چینی نایاب کر کے اپنی تجوریاں نہ بھر رہے ہوتے اور مُلکِ پاکستان اور پاکستانی قوم کی دنیا کے اندر یہ بے توقیری نہ ہوتی ۔ اب سُنا ہے کہ پاکستان میں آئی ۔ ایم ۔ ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ دونوں طرف آئی ۔ ایم ۔ا یف کے لوگ ہیں جو رات دن پاکستانی قوم کا خون نچوڑ نے کے نت نئے انداز اپناتے ہیں مگر قوم کب تک خاموش رہے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ایک لسٹ بنائی جائے ان لوگوں کی جنھوں نے اس ملک کو نہیں لوٹا جو مختصر ترین ہوگی مگر جس سے بات کریں وہ ثابت کرتا ہے کہ مجھ سے زیادہ ایماندار دنیا میںکوئی نہیں ہے۔ رات دن ڈرائی کلین کی مشینیں لگی ہوئی ہیں اور گندگی میں لتھڑے لوگ صاف شفاف ہو کر چھلانگیں لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ میں کسی خاص گروہ کی بات نہیں کر رہا بلکہ مجھے لگتا ہے کہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔ اب بس کرو بس بہت ہوگئی ۔ ایک مخصوص گروہ جو ہر دور میں تجوریاں بھرتا ہے اب وہ باز نہ آیا تو میں اُن کے گوداموں اور گھروں میں بھوک غربت اور مہنگائی سے مجبور قوم کو لوٹ مار کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ پھر بڑی بڑی گاڑیوں والے بھی خیر منائیں جب بھوکے لوگ سڑکوں پر آکر بلا تفریق سب سے حساب لیں گے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ روزِ حساب دور ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔ کبھی دنیا میں ہی اللہ نشانِ عبرت بنا دیتا ہے وگرنہ محشر میں یہ ناجائز ذخیرہ اندوزی اور ظلم و جبر سے اکٹھی کی ہوئی دولت ہی تمھارے لیے جہنم کا ایندھن بنے گی دنیا سے واپسی کا ہمارے پاس کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہے کسی وقت بھی جانا ہے کوئی روک نہیں سکتا ۔ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو راضی کر کے اس قابل ہو جائیں کہ عزرائیل ؑ جب لینے کیلئے آئیں تو کہیں اے نیک رُوح چل اپنے اللہ کی طرف اور یاد رکھیں اگر دنیا میںحقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کر کے اللہ کو راضی نہ کیا تو یہ عہدے اور دولت کسی کام نہیں آئے گی۔جس معاشرے میں جانور نہیں انسان کی تذلیل ہو رہی ہو تو اس کا جوب ہمیں بھی اور بادشاہوں کو بھی دینا پڑے گا۔ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا ۔ اللہ کی مخلوق سے محبت اور اپنی زمہ داریاں پوری کرکے اللہ کریم کے سائے میں آجائیں اور مجھے بھی یہ کہنے دیں کہ:۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خُدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024