کشمیریوں کی لازوال قربانیوں سے منزل قریب نظر آتی ہے
مودی کا مقبوضہ کشمیر آمد پر سیاہ جھنڈوں سے استقبال‘ مظاہرے ہڑتال‘ کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہیں‘ اسلام آباد کانفرنس کا اعلامیہ
جمعیت علماء اسلام کے زیراہتمام مسئلہ کشمیرکے حوالے سے منعقدہ کل جماعتی مشاورتی کانفرنس میں شریک قومی قیادت نے کہاہے کہ مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ،شملہ معاہدہ سے جان چھڑاکر حقیقی کردار ادا کریں،بین الاقوامی سطح پرمسئلہ کشمیراجاگرکرنے کیلئے کشمیریوں کوآگے بڑھایاجائے۔ مسئلہ کشمیر پر ہونیوالی قومی مشاورتی کانفرنس میں تمام قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے تحریک انصاف کو دعوت نہیں دی تھی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زر داری نے کہا کشمیر پر سارے پاکستانیوں کا ایک موقف ہے۔میرا موقف بھی سب پاکستانیوں جیسا ہے۔ کشمیر کے ہر گھر میں ایک بچہ شہید ہے،کشمیریوں کی جدوجہد نہیں بھلائی جاسکتی۔مسئلہ کشمیر پر سب کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔ کشمیر ہمارے ڈی این اے میں ہے،ہم کشمیر کو خود سے الگ نہیں کرسکتے،ہماری بنیاد ہی کشمیر ہے۔ مولانافضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طویل عرصہ سے پانچ فروری کو بطور یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے‘ کشمیریوں کا حق خود ارادیت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔آج عہد کرتے ہیں قوم جدوجہد کاتسلسل برقرار رکھتے ہوئے کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہے۔ کشمیریوں کیلئے جدوجہد کا تسلسل جاری رہے گا۔ آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک دو سو سالہ پرانی ہے اور اس تحریک کی آبیاری انہوں نے اپنے مقدس خون سے کی ہے۔ جس تحریک کی خاطر ہمارے آباو اجداد نے اپنے سر کٹوائے اور اپنے زندہ جسموں سے کھالیں کھنچوائیں اس تحریک سے ہم کیسے دستبردار ہو سکتے ہیں۔ ہم کشمیریوں کی مدد جاری رکھیں گے۔ وزیر اعظم آزادکشمیرراجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیرپر ہماری بنیاد ہیں انہیں نظر انداز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔راجہ ظفرالحق نے کہا جتنے بھی ملک آزاد ہوئے قربانیوں سے ہوئے،بڑا مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تو ہمیشہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے اوپر یہ تلوار لٹکتی رہے گی ۔عبدالرشید ترابی نے کہا وزیر اعظم پاکستان عمران خان فوری طور پر کشمیر کی مسلمہ قیادت سے مشاورت کا اہتمام کریں،شملہ معاہدہ سے جان چھڑاکر حقیقی کردار ادا کریں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کو‘ جس کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی توثیق کی‘ بنیاد بنا کر ہندوستان کو کٹہرے میں لایا جائے۔
کشمیر کاز کیلئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پوری قوم متحد‘ یکجا اور یکجہت ہے۔ کشمیرکاز کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس مسئلہ کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ مولانا فضل الرحمن دس سال کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے جو کام انہیں بطور چیئرمین کم از کم ہر سال کشمیر پر کانفرنس کی صورت میں ایک بار کرنا چاہیے تھا‘ وہ دس سال میں ایک بار بھی نہیں ہوا۔ دیرآید درست آید کے مصداق انہوں نے ایک بڑی اور بھرپور کانفرنس کا انعقاد کیا مگر وہ خود کو سیاست سے بالا نہ رکھ سکے۔ تحریک انصاف کو کانفرنس میں مدعو کیا جاتا تو بہتر تھا۔ مقررین نے کشمیر کے حوالے سے کئی نکات اٹھائے اور کئی امور پر حکومت سے نوٹس لینے کے مطالبات بھی کئے۔ کانفرنس میں حکومتی نمائندے کی موجودگی میں کانفرنس کے شرکاء کی تجاویز رائے اور مشورے براہ راست حکومت کے نوٹس میں آجاتے۔ کانفرنس میں حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ تحریک انصاف کی موجودگی میں بھی تنقید ہو سکتی تھی۔ خود مولانا فضل الرحمن کو بھی اسی کانفرنس کی میزبانی میں حریت رہنمائوں نے دس سال میں مسئلہ کشمیر پر غیرفعالیت کے باعث آڑے ہاتھوں لیا۔
کانفرنس کے دوران کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما ئوں نے ڈاکٹر مجید نظامی کی مسئلہ کشمیر پر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اورکہا کہ مرحوم نے مسئلہ کشمیر کیلئے اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر مجید نظامی ،قاضی حسین احمد،حمید گل اور سردار عبدالقیوم خان وہ لیڈ ر تھے جن کے پاس جا کر ہم ماضی میں مسئلہ کشمیر پر بات کرتے تھے‘ انہوںنے مسئلہ کشمیر کیلئے حقیقی کردار ادا کیا۔ حریت رہنماشدید تنقید کرتے ہوئے سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن پر برس پڑے‘ کہا بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی دس سال گزارے مگر کشمیر کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اگر چیئرمین کشمیر کمیٹی ہوتے ہوئے اس طرح کی مشاورتی کانفرنس کی ہوتی تو بہت فائدہ ہوتا۔ بھارت میں آپ کی بہت عزت ہے‘ وہاں کے مسلمان بھی آپ کی عزت کرتے ہیں۔ ان کا بھارت میں اثر ورسوخ ہے مگر مولانا فضل الرحمن نے اس اثرورسوخ کو مسئلہ کشمیر کیلئے کبھی استعمال نہیں کیا۔ حریت رہنماء سید یوسف نسیم نے مزید کہا کہ کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ رشتہ دین و ایمان کا ہے، تحریک آزادی 1947ء سے 1990ء تک سیاسی جدوجہد جاری رہی 1990ء میں کشمیریوں کے بندوق اٹھانے کی وجہ سے تحریک عالمی سطح پر اجاگر ہوئی مجاہدین نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
کشمیر کے حوالے سے مجید نظامی مرحوم کی جدوجہد بے لچک اور مصلحتوں سے بالاتر اور راست سمت میں تھی‘ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت‘ جناب مجید نظامی آزادی کشمیر کیلئے زندگی بھر ہرلحظہ فعال و متحرک رہے۔ اسی وجہ سے کشمیر کے حوالے سے وہ پاکستانیوں کیلئے رول ماڈل اور کشمیریوں کی دلعزیز شخصیت ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف حکومت بھی مسئلہ کشمیر پر کمٹڈ اور اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا موقف دنیا کیلئے چشم کشا اور جارح بھارت کیلئے تازیانہ تھا۔ وزارت امور کشمیر فعالیت کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہے۔ فخرامام کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ فخرامام سینئر سیاست دان‘ پاکستان کی سیاست کو سمجھتے اور امور کشمیر سے آگاہ ہیں۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کیلئے ایسے ہی سینئر اور سنجیدہ سیاست دان کی ضرورت تھی۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اپنا فعال کردار ادا کرینگے۔
کشمیری بھارتی افواج کا بدترین تشدد برداشت کررہے ہیں‘ اس سفاکیت اور بربریت میں انکی جانیں قربان ہو رہی ہیں ہیں مگر بھارتی تسلط قبول کرنے پر تیار نہیں۔ اڑھائی سال قبل مظفروانی کی شہادت سے جدوجہد حریت کو نئی مہمیز ملی‘ کشمیری اپنی جدوجہد کو عروج پر لے گئے جس میں اڑھائی سال میں سرمو فرق نہیں آیا۔ ان کا ٹیمپو برقرار ہے۔ کشمیریوں کی بے باکانہ جدوجہد سے بھارت خائف ہے‘ کشمیر اسے ہاتھ سے جاتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس نے کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے کٹھ پتلی اور نام نہاد حکومت توڑ کر گورنر راج لگادیا مگر کشمیریوں کے جذبوں میں کمی نہ آئی تو صدر راج نافذ کردیا گیا۔ وہ بھی بے سود ثابت ہورہا ہے۔ بھارت نواز کشمیری سیاسی قیادت‘ سابق بھارتی وزیر دفاع و وزیر داخلہ اور مقبوضہ کشمیر میں تعینات جرنیل بھی بھارت کو طاقت کے استعمال کے بجائے مقبوضہ کشمیر کے سیاسی حل پر زور دے رہے ہیں۔ بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں جس پر بھارتی حکومت کان دھرنے کو تیار نہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانیوں کی طرف سے یوم یکجہتی کشمیر تو کل منایا جانا ہے۔ حسب سابق اس روز مقبوضہ وادی میں معمولات زندگی ہڑتال اور مظاہروں کے باعث جام ہو جاتے ہیں مگر گزشتہ روز بھی وہاں مودی کی آمد پر پہیہ جام رہا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبوضہ کشمیر آمد کیخلاف گزشتہ روز مکمل ہڑتال کی گئی۔ کشمیری عوام نے سیاہ جھنڈوں سے مودی کا استقبال کیا۔ بھارتی وزیراعظم کی آمد پر سری نگر،جموں اور لیہہ کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا گیاتھا۔ بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی پکڑ دھکڑ کی گئی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ میرواعظ عمرفاروق کو گھر پر نظر بند کر دیا گیا جبکہ سید علی گیلانی پہلے ہی نظر بند ہیں۔مودی نے دورے کے پہلے روز کئی منصوبوں کا اعلان کیا۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کشمیر آکر ترقیاتی منصوبوں اور پیکجز سے کشمیریوں کو خرید نہیں سکتے۔ ہماری طویل اور صبر آزما تحریک اس بات کی گواہ ہے کہ مراعات، استعماری پیکیج، نوکریوں اور تعمیر وترقی کے لالی پاپ سے اس قوم کو بہلایا نہیں جاسکتا۔
آج کشمیریوں کی جدوجہد اوج کمال پر ہے‘ بھارت جس طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہے‘ کشمیریوں کی آزادی کی منزل قریب محسوس ہورہی ہے۔ پاکستان اور قوم کو متحد ہو کر کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ہوگا۔پاکستان کو اقوام متحدہ پرزور دینا چاہیے کہ اپنی منظور کردہ قراردادوں پر سنجیدگی سے عمل کرائے۔