عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائیگی‘ انصاف وہ ہے جو ہوتا نظر آئے چیف جسٹس
اسلام آباد (آئی این پی‘این این آئی‘نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ قوانین پارلیمنٹ بناتی ہے‘ آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے‘ ملک میں گریٹ لیڈر اور گریٹ منصف آگئے تو ملکی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا‘ ہمیں موجودہ حالات اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے ‘ عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائیگی‘ انصاف وہ ہے جو ہوتا نظر آئے ‘ بڑے بڑے مگر مچھوں کو کٹہرے میں لانا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے روئیے ٹھیک کرنا ہوں گے۔ روئیے ٹھیک کرنے کا مطلب کام جلد نمٹانا ہے۔ ٹارگٹ دے کر انصاف کرنا مزدوری ہے۔ ہم عدالتی نظام کا حصہ ہیں جو ریاست کا اہم ستون ہے۔ انصاف میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس پشاور اور سندھ نے کہا کہ ٹارگٹس دیدیں مجھے ٹارگٹ دل اور جذبے سے چاہئیں۔ وسائل کی کمی انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئے۔ آپ زیادہ اہمیت کے ججز ہو کیونکہ آپ کو سپیشل ٹاسک دیا گیا ہے آپ کو حقائق پر فیصلہ کرنا چاہئے۔ ٹارگٹ دے کر انصاف لینا مزدوری ہے۔ بڑے بڑے کیسز سے نمٹنے کیلئے احتساب کورٹ بنا کر دی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مجھے فخر ہوتا ہے کہ میں پاکستان کا شہری ہوں کیا ہم اس اپنی دھرتی ماں کا حق ادا کر رہے ہیں؟۔ اعتزاز احسن نے دھرتی کو ماں کہا بالکل ٹھیک کہا۔ بے وطن لوگ بہت بدنصیب ہوتے ہیں ۔ لوگوں کو شکایت ہے اس کی ذمہ داری لیتا ہوں آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ بڑے بھائی کو شرمندگی سے بچائیں۔ مین سٹریم سیٹ اپ میں آپ 2 قدم آگے ہیں۔ چینی ایک قوم ہیں ہمیں بھی ایک متحد قوم بننا ہے۔ رزق اللہ نے دینا ہے آپ دیانتداری سے کام کریں۔ ایک ہائی کورٹ کے جج کی تنخواہ 40 سے 45 ہزار روپے روزانہ ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ ہائی کورٹ کے جج سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے جس نے آئین سازی کرنی ہے کیا موجودہ حالات کے تحت قانون اپ ڈیٹ ہوا؟۔ میری سب سے گزارش ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کو ایک سال کیلئے بھول جائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ججوں کو قانون پر مکمل گرفت ہو ۔ ہم سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے سرکاری ملازم ہیں۔ درجہ سوئم کے جج اور میاں ثاقب نثار میں فرق نہیں رکھتا۔ میری گزارش ہے کہ اپنی ذمہ داریاں نوکری سمجھ کر نہیں فرض سمجھ کر ادا کریں۔ تعلیم ‘ صحت اور مفاد عامہ کا کام ہما را عزم ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں تھک گیا ہوںکہہ کہہ کر ایک مہینے میں فیصلے دیں۔ میرے پاس کیسز آ رہے ہیں جن میں ایک ایک سال بعد فیصلے لکھے گئے۔ آج آپ انصاف دیں گے تو کل آپ کو انصاف ملے گا۔ امن آئے گا تو فتنے ختم ہوں گے۔ آپ میرا حصہ ہو اس لئے آپ سے بات کر رہا ہوں۔ بچوں کو کوٹھی اور پراڈو دے کر جاﺅ گے تو اس کا کچھ نہیں بنے گا۔ انصاف کا بول بالا کر کے جائیں گے تو معاشرے میں بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہاکہ عوامی حقوق کیلئے سوموٹو ایکشن لئے اور آگے بھی لیتے رہیں گے۔ سی پیک کے بارے میں جلد ایک میٹنگ کر رہے ہیں۔ نظام کو درست کر کے چلے جائیں گے تو خود بخود بہتری آ جائے گی۔ خدا کے واسطے انصاف کی فراہمی کے لئے جو کرسکتے ہیں کر گزریں، وعدہ کرتا ہوں جمہوریت کو کبھی پٹری سے اترنے نہیں دیں گے۔ ہم جمہوریت کو خطرے کا حصہ ہیں نہ بنیں گے۔ عدلیہ میں کام کرنا ہے تو دیانت داری اور جذبے سے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے،آئین سازی پارلیمنٹ نے کرنی ہے،کل کیا قانون آئے گا ہمیں اس کا انتظار نہیں کرنا، ہمیں موجودہ حالات اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ بار کے کیس میں ہم نے نظریہ ضرورت دفن کر دیا۔ اپنے دورہ چین کی مثال دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ چین میں اتنی تیزی سے ترقی دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا اور چینی چیف جسٹس سے اس کا راز پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے صرف ایک قوم بن کر ترقی حاصل کی۔ میں چینی دورے میں اجلاس میں شرکت کےلئے گئے تھے جہاں تقریباً 15 ممالک کے چیف جسٹس صاحبان تقریب میں شرکت کےلئے آئے ہوئے تھے تاہم میں واحد چیف جسٹس تھے جنہیں چینی چیف جسٹس نے علیحدہ اپنے چیمبر میں کھانے پر بلایا اور ملاقات کی۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ اس ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے چین کے چیف جسٹس نے مجھے اپنی ملکی ترقی کا راز بھی بتایا اور ملک کے نظام کے بارے میں بھی آگاہ کیا جبکہ اس دوران انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارے ساتھ ایک مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط بھی کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بھول جائیں کہ یہاں کوئی سازش ہورہی ہے ¾آئین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ¾ انشا اللہ اس سے پہلو تہی نہیں کریں گے اور عدلیہ کی عزت و تکریم کےلئے کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کہا گیا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو مفلوج کردیا تاہم وفاقی حکومت کی وجہ سے یہ نہیں پتہ ہم کتنے مفلوج ہوئے ہیں۔ قیامت کے دن ایک عادل قاضی کو اللہ کی رحمت کی چھاو¿ں نصیب ہوگی ¾یہ بڑا جید کام ہے لٰہذا اپنی ذمے داریاں نوکری سمجھ کر نہیں فرض سمجھ کر ادا کریں۔ انہوں نے کہاکہ جج صاحبان کو چھوٹے موٹے کام نہیں دئیے گئے بلکہ کہ وائٹ کالر کرائم والے بڑے بڑے مگرمچھوں جن کو پکڑنے کےلئے کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا، کا احتساب کرنے کا کام سونپا گیا۔ احتساب عدالت اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ججز بہت اہمیت کے حامل ہیں اور انسداد دہشت گردی عدالتوں کےلئے تگڑے بندے چاہئیں ¾عدلیہ میں جلد فیصلوں کی پالیسی نافذ کردی گئی۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ ہائی کورٹ کا جج ماہانہ 9 لاکھ روپے اور روزانہ کی 40 ہزار روپے تنخواہ لیتا ہے، سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے، تو کیا یہ ججوں کا فرض نہیں ہے کہ وہ روزانہ اتنے روپے کا کام بھی کریں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کو اختیارات سے تجاوز کرنے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کسی منصوبے کا حصہ نہیں اور اگر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو میں عہدے پر نہیں رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ’عدلیہ کو کچھ مقدمات کی سماعت پر جمہوریت مخالف مہم کا حصہ بننے کا الزام دیا جا رہا ہے لیکن جج کسی کے دبا¶ میں نہیں آئیں گے‘۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں اور ہم کسی کو ناانصافی کرنے نہیں دیں گے‘۔ عدلیہ کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے ’ماضی میں چند غلطیاں کی ہیں‘ اور ادارے کو آگے بڑھنے کے لئے خود احتسابی بھی کرنا ہو گی۔
چیف جسٹس