اتوار ‘ 17 جمادی الاوّل‘1439 ھ ‘ 4 فروری 2018ء
سرکاری ہیلی کاپٹر پر عمران کا سفر چیئرمین نیب نے انکوائری کا حکم دے دیا
ہو سکتا ہے خان صاحب پیسے نہ ہونے کی وجہ سے عام جہاز کا سفر نہ کر سکتے ہوں اس لئے خیبر پی کے کی حکومت انہیں اپنا ہیلی کاپٹر دیتی ہو۔ اب اس پر پکڑ کیوں یہ تو وہی....
مفت کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
والی بات ہے۔ چچا غالب کا یہ شعر لگتا ہے آج ہمارے مقبول سیاستدانوں پر بھی صادق آتا ہے۔ اب خان صاحب کو ہی دیکھ لیں وہ بھی مفت میں ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر چکر لگانے اور سفر کرنے کے شوق میں نیب کی طرف سے انکوائری بھگتنے والے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہوائی چکر اب انہیں اپنے چکر میں لے رہا ہے۔ ویسے بھی آج کل ہمارے اکثر سیاستدان پاﺅں کے چکر میں ہیں۔ کوئی پیشیاں بھگت رہا ہے کوئی پیشی بھگتنے کے چکر میں ہے۔ کوئی جلسے کر رہا ہے تو کوئی ریلیاں نکال رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ انہیں اس گھن چکر سے کب نجات ملتی ہے۔ اب خیبر پی کے کی حکومت اور وزیر توزور و شور سے خان صاحب کی برا¿ت ظاہر کر رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی ذاتی یا اکیلے ہیلی کاپٹر کی سیر نہیں کی مگر اب ان کے ساتھ وزیراعلیٰ خیبر پی کے پر بھی الزام آ رہا ہے کہ انہوں نے خان صاحب کو ہوائی سیر کرانے کے لئے اپنے اختیارات کا جائز استعمال کیا ہے۔ اب نیب نے سرکاری ہیلی کاپٹر پر خان صاحب کے سفر اس کے اخراجات مبلغ ایک کروڑ گیارہ لاکھ روپے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے تو دیکھنا ہے اب یہ چکر کیا چکر چلاتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
ایم ایم اے کی بحالی اسلامی نظام نہیں اقتدار کے لئے ہے: اسفند یار ولی
یہ تو پرانی بات ہے۔ سب جانتے ہیں کہ الیکشن کا موسم قریب آنے پر تمام سیاسی میکدوں میں نئے جام سجائے جاتے ہیں۔ پرانی بوتلوں پر نئے لیبل لگائے جاتے ہیں۔ بس یہ نئے اتحاد بھی وہی پرانے منشور لئے ووٹروں کا دل لبھانے کی کوشش ہوتے ہیں ورنہ سب جانتے ہیں کہ ہماری دینی جماعتوں کی ہمیشہ سے اپنی علیحدہ علیحدہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے۔ اتحاد کے باوجود کبھی یکجان نہیں ہو سکتے۔ ماضی میں جتنے بھی اتحاد بنے ان کا انجام جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ اس وقت بھی کئی مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی بریانی بنی ہوئی ہے۔ اس پر ایم ایم اے کا شوربہ نان اور سہی۔ اے این پی والے اب تنہا کشتی لڑنے کے چکر میں ہیں۔ اسی لئے تنہا مقابلے چاہتے ہیں۔ ایم ایم اے میں شامل جماعتیں اب اتنی بھی بھولی نہیں کہ اسفندیار ولی کی باتوں میں آ کر اتحاد ختم کر لیں، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام والے جانتے ہیں کہ وہ تنہا کہیں بھی کسی بھی صورت حکومت تو دور کی بات وزارت تک نہیں لے سکتے اس لئے اب باقی دینی جماتوں کو سیڑھی بنا کر وہ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خود اے این پی بھی کسی مضبوط سیاسی جماعت سے اتحاد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی، یہ بات اے این پی والے بھی جانتے ہیں۔ ویسے اگر اے این پی والوں نے اپنے دور حکومت میںکوئی اچھام کام کیا ہوتا تو وہ تنہا بھی اچھی نشستیں جیت لیتے مگر انہوں نے تو بہت ساری بدنامی اپنے کھاتے ہیں جمع کر لی ہے۔ صوبہ خیبر پی کے میں بھی اور محکمہ ریلوے سے بھی۔
٭....٭....٭....٭
لوٹی ہوئی دولت صرف پی پی واپس لا سکتی ہے: آصف زرداری
یہ خبر پڑھ کر اگر لوگوں کا ”ہاسہ “ نہیں رکتا تو اس میں ان کا کیا قصور۔ اب ایسے بیانات کے ردعمل میں زمین نہیں ہلے گی بارش بند نہ ہو گی تو اور کیا ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی کا یہ بیان سن کر تو اچھے اچھے چکرا کر رہ گئے ہوں گے کہ جناب کیا فرما رہے ہیں۔ قوم تو جناب آصف زرداری سے دست بدستہ یہی عرض کر سکتی ہے کہ جناب آپ سب کو گولی ماریں‘ چھوڑ دیں۔ صرف ایک احسان کریں پوری قوم پر وہ یہ کہ صرف اپنی بیرون ملک جمع شدہ دولت واپس لے آئیں جسے کوئی لوٹی ہوئی کہنے کی جرات بھی نہیں کرے گا۔ پوری قوم آپ کو ووٹ دے گی، 5 سالوں کیلئے تاج حکمرانی ایک بار پھر آپ کے سر پر سجا دے گی۔
عوام کو لوٹی ہوئی دولت نہیں صرف بیرون ملک جمع شدہ بنکوں میں چھپاکر رکھی گئی دولت ہی مل جائے تو پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضے اتر سکتے ہیں‘ عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ دوسروں کی دولت نکلوانا بہت مشکل ہے۔ اگر ہمارے سیاستدان، بیورو کریٹ، علما ، اشرافیہ، صنعتکار، تاجر اور جاگیردار بیرون ملک رکھی اپنی دولت ہی واپس ملک میں لائیں تو پاکستان خوشحال ریاست بن سکتا ہے۔ تو پھراچھا ہے، جناب زرداری صاحب آغاز اپنے آپ سے کریں، اچھے کام میں دیر کس بات کی....
٭....٭....٭....٭
سندھ بلوچستان کو کم پانی کی فراہمی کا ازالہ کرے: ارسا
امید ہے اب بلوچستان والوں کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان کا پانی کون چوری کر رہا ہے۔ پہلے تو جھٹ پنجاب پر الزام لگا دیا جاتا تھا۔ سندھ سرکار تو ابھی تک پانی چوری خود کرتی ہے اور الزام دوسروں پر لگانے سے نہیں چوکتی۔ بلوچستان آبی لحاظ سے قحط سالی کا شکار رہتا ہے۔ وہاں رقبہ بہت ہے۔ مگر زمین یا تو ریگستانی ہے یا پہاڑی۔ زرعی اراضی بھی کافی ہے مگر افسوس وہاں پانی کی قلت رہتی ہے۔ زیادہ تر دارو مدار بارش پر ہوتا ہے یا پھر نہری اور پہاڑی ندی نالوں کے پانی پر۔ بارش تو خوش قسمتی ہے اگر ہو تو ورنہ وہی خشک سالی۔ البتہ نہری پانی صوبوں کو طے شدہ شیڈول کے مطابق سال بھر ملتا ہے۔ اب یہ بلوچستان کو سندھ کی قربت کی وجہ سے وہاں سے نہری پانی فراہم ہوتا ہے جس میں بلوچستان والے رو رہے ہیں کہ سندھ ڈنڈی مار رہا ہے۔
اب ارسا والوں نے سندھ سے کہا ہے کہ وہ بلوچستان کو پورا پانی فراہم کرے۔ یہ پانی کا جھگڑا برسوں سے صوبوں کے درمیان چل رہا ہے جس کی وجہ سے کافی تلخی بھی پیدا ہوتی ہے مگر ہمارے بعض سیاستدان صوبائی حکمران جان بوجھ کر مل جل کر اس کا حل نہیں نکالتے۔ اس کا واحد حل کالا باغ ڈیم ہے جس کی بدولت ہر صوبے کو ہر موسم میں اس کی ضروریات کے مطابق وافر پانی میسر ہو سکتا ہے مگر خیبر پی کے اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کو کالاباغ کا نام سن کر ہی کالا یرقان ہونے لگتا ہے اور وہ مفروضوں پر مبنی اپنے اعتراضات دہرانے لگتی ہیں جس کی وجہ سے یہ منصوبہ نہیں بن پا رہا۔