آج جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر رکھنے کی ذمہ داری تمام فریقین پر عائد ہوتی ہے
میاں نوازشریف کے عدلیہ کو ڈکٹیٹروں کی معاون ہونے کے طعنے اور چیف جسٹس کا عدالتی فعالیت آگے بڑھانے کا عزم
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہورہا کہ فوج اور عدلیہ کے بعض عناصر جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک میں جب بھی جمہوریت جڑیں پکڑنے لگتی ہے تو اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں مسلم لیگ (ن) سندھ کی جانب سے منعقدہ ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ منہ زور عدلیہ ڈکٹیٹروں کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ انکے بقول ملک میں جب بھی جمہوریت پر یلغار ہوئی تو عدلیہ کے ایک حصے نے آمروں کا ساتھ دیا۔ آج بھی سیاسی مطلع پوری طرح صاف نہیں ہے‘ ہر طرف گردوغبار ہے‘ 70 سال گزرنے کے بعد بھی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے۔ نظریہ ضرورت نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس ہی کی وجہ سے جمہوریت کو منزل حاصل کرنے سے روکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں واپس آکر پی سی او ججوں کیخلاف سخت فیصلے کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف پہلا ڈکٹیٹر ہے جسے ہم عدلیہ کے کٹہرے میں لائے جو ملک سے فرار ہوا اور پاکستان کی سرزمین پر واپسی کے حوالے سے خوفزدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ جمہوریت کو خراب کرنے کی شروعات اس وقت ہوئیں جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹایا۔ یہیں سے جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنانے کا عمل شروع ہوا اور یہیں سے نظریہ ضرورت سامنے آیا‘ اسکے بعد جمہوریت پنپ نہیں سکی۔ ہر مرتبہ ابھرتی جمہوریت پر کلہاڑا چلایا جاتا رہا ہے۔
نوازشریف نے مولوی تمیزالدین کیس سے پانامہ کیس تک کے عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ فوجی آمر جمہوریت پر وار کرتے رہے اور عدلیہ کا ایک حصہ عوام کے بجائے آمروں کا ساتھ دیتا رہا۔ مشرف کو وہ اختیار دے دیا گیا جو ججوں کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسے یہ کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ آئین کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ کراچی میں وکلاءکے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد صوابدیدی اختیارات کے لمبے ہاتھ اب پارلیمنٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ کسی آمر کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی مرضی مسلط کرنے کیلئے ججوں پر دباﺅ ڈالے‘ انہیں قید کرے اور انہیں عدالتوں سے نکال باہر کرے۔ نوازشریف کے بقول ہم عدلیہ بحالی میں تو کامیاب ہوگئے مگر عوام کو انصاف نہ مل سکا اور وہ صبح طلوع نہ ہو سکی جسے عدل کی تابناک صبح کہا جاسکے۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہماری عدلیہ نے سیاست دانوں اور منتخب نمائندوں کے بارے میں ہمیشہ انتہائی سخت اور اکثر انصاف کے تقاضوں کے منافی رویہ اختیار کیا جبکہ ڈکٹیٹر انہیں عزیز رہے ہیں۔ انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ انہیں کروڑوں لوگوں نے منتخب کیا اور پانچ افراد نے نااہل قرار دے دیا‘ کیا یہ جائز بات ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم کی زیرقیادت برصغیر کے مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں تشکیل پانے والے اس ملک خداداد میں بانی¿ پاکستان کے انتقال کے ساتھ ہی جمہوریت کیخلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا اور سب سے زیادہ افسوسناک یہ صورتحال ہے کہ مفاد پرست سیاست دانوں اور انگریز اور ہندو کے ٹوڈی جاگیردار طبقات نے اسٹیبلشمنٹ کی ان سازشوں کو اپنے کندھے فراہم کرکے تقویت پہنچائی۔ یہ حقیقت تو عدالتی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے جس کا خود میاں نوازشریف نے بھی گزشتہ روز اپنی تقریر میں حوالہ دیا ہے کہ 1954ءمیں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹایا تو وہ رکشہ میں بیٹھ کر ہائیکورٹ گئے اور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ صادر کرتے ہوئے انکی حکومت بحال کردی۔ اس فیصلے کیخلاف اگر فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمدمنیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور اسمبلی توڑنے سے متعلق غلام محمد کا اقدام درست قرار دیا تو اس فیصلہ کی بنیاد پر پوری عدلیہ کو مطعون کرنے کی گنجائش کہاں سے نکل آتی ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ جمہوریت کو زیادہ تر ہمارے مفاد پرست سیاست دانوں نے خراب کیا ہے جو اپنی مخالف حکومت کو گرانے اور اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے ماورائے آئین اقدام والوں کو خوش آمدید کہتے اور خود کو جرنیلی اقتدار کا حصہ بناتے رہے ہیں۔ کیا اس بنیاد پر پوری سیاست کو رگیدنا اور تمام قومی سیاسی قائدین پر آمروں کے آلہ¿ کار ہونے کا الزام لگانا مناسب ہوگا۔ آج اگر میاں نوازشریف اپنے خلاف فیصلہ صادر ہونے پر پوری عدلیہ کو رگیدتے ہوئے اس پر آمروں کا معاون ہونے کا لیبل لگا رہے ہیں تو پھر انکی ماضی کی سیاست پر انگلیاں اٹھانا بھی فطری امر ہوگا جس میں وہ جرنیلی آمر کی انگلی پکڑ کر اقتداری سیاست کی وادی میں داخل ہوتے اور پھر اپنی مخالف پیپلزپارٹی کی حکومت کو گرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کو آئی جے آئی کے پلیٹ فارم پر پایہ¿ تکمیل کو پہنچاتے نظر آتے ہیں جبکہ انکے سیاسی مخالفین تو انکے حق میں صادر ہونیوالے عدالتی فیصلوں پر عدلیہ کیلئے ”چمک“ اور ”کینگرو کورٹ“ کی اصطلاحات استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس وقت تو انہیں عدلیہ پر آمروں کی معاون ہونے کا کوئی دھبہ نظر نہیں آتا ہوگا جبکہ اسی عدلیہ نے ڈکٹیٹر غلام محمدجیسے آمرانہ اقدام کی مماثلت رکھنے والے غلام اسحاق خان کے میاں نوازشریف کی حکومت اور اسمبلی توڑنے کے اقدام کو باطل قرار دے کر انکی حکومت بحال کی تو یقیناً اس وقت بھی انکی نگاہ میں عدلیہ آمروں کی معاون نظر نہیں آئی ہوگی۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ عدلیہ کی جانب سے انہیں بطور وزیراعظم توہین عدالت کا نوٹس بھجوایا جائے تو عدلیہ پر حملہ کرادیا جائے اور عدلیہ کی جانب سے انکی توقعات اور خواہشات کے منافی انہیں نااہل قرار دے دیا جائے تو عدلیہ پر گرد اچھالنی شروع کردی جائے۔ اگر یہی عدلیہ انکے مخالف وزیراعظم کو نااہل قرار دے تو وہ انہیں انصاف کی عملداری کا بول بالا کرتی نظر آئے اور اسی عدلیہ کے ہاتھوں وہ خود نااہل قرار پائیں تو عدلیہ انکے نزدیک آمروں کی آلہ¿ کار بن جائے۔ یقیناً کردار و عمل کے اس تضاد سے ہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور جمہوریت پر کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت شب خون مارنے کی سوچ رکھنے والوں کے عزائم کو تقویت ملتی ہے۔
اگر عدلیہ کے گزشتہ ایک دہائی کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اس پر کم از کم جرنیلی آمروں کے عزائم کو تقویت پہنچانے کا الزام نہیں لگ سکتا۔ اسی عدالت نے چیف جسٹس معطلی کیس میں ایک متکبر جرنیلی آمر مشرف کے بارعونت اقتدار کے دوران ہی جسٹس افتخار چودھری کی معطلی کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر نظریہ ضرورت کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا تحریری اعلان کر رکھا ہے جبکہ اسی عدلیہ کی بحالی میں خود میاں نوازشریف نے حصہ ڈالا ہوا ہے۔ گزشتہ دہائی سے ملک میں جیسی بھی ہے‘ جمہوریت کی عملداری تو قائم ہے۔ اگر اسکے ثمرات اب تک عوام کے پاس نہیں پہنچ پائے اور بے وسیلہ عوام اپنے روٹی روزگار اور دوسرے روزمرہ کے مسائل سے عاجز آکر عدلیہ کی فعالیت سے اپنے مسائل کے حل کیلئے بھی توقعات وابستہ کرچکے ہیں تو سلطانی¿ جمہور کے نام پر اپنی مفاداتی حکمرانیوں کو تقویت پہنچانے والے حکمران طبقات ہی اسکے ذمہ دار ہیں جبکہ انہی طبقات نے اپنی مخالف حکومتوں کو نہ چلنے دینے کی پالیسی اختیار کرکے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔
میاں نوازشریف کی انٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست میں جمہوریت کو بچانے کیلئے فکرمندی اپنی جگہ بجا ہے اور ہماری سیاست میں اسی سوچ کو پنپنا چاہیے تاہم صرف اپنے مفادات پر زد پڑنے کو پورے سسٹم پر زد پڑنے سے تعبیر کرنا قطعاً مناسب نہیں۔ اس وقت جبکہ میاں نوازشریف کی اپنی پارٹی برسراقتدار ہے اور موجودہ اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے میں بھی اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا جس کیلئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق بھی مطمئن نظر آتے ہیں تو میاں نوازشریف کا خود کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کا نتیجہ حکومتی گورننس کمزور ہونے اور سسٹم میں خرابیاں درآنے کی صورت میں نکالنا اپنی ہی حکومت پر ملبہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر وہ خود ہی اس امر کا اظہار کرینگے کہ آج قومی معیشت تنزلی کا شکار ہے اور حکومتی اتھارٹی کمزور ہوچکی ہے جس کے باعث عوام مہنگائی سمیت گوناں گوں مسائل کا شکار ہورہے ہیں تو وہ اس ”کمزور“ حکومت کو گرانے کا خود ہی جواز فراہم کررہے ہیں۔
درحقیقت میاں نوازشریف کی اداروں ی ساتھ ٹکراﺅ والی پالیسی کے باعث ہی عدلیہ کی فعالیت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اگر انکی پارٹی کی حکومت عوام کو انکے گوناںگوں مسائل میں ریلیف دینے کا باعث بن رہی ہو تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کیلئے لوگوں کی چیخ و پکار پر کان دھرنے اور آئین کی دفعہ 184 شق 3 والے صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی گنجائش ہی نہ نکلے۔
کراچی میں میاں نوازشریف کے گزشتہ روز کے خطاب سے اس امر کا واضح عندیہ مل رہا ہے کہ وہ اداروں کے ساتھ محاذآرائی کی پالیسی پر نظرثانی کرنے پر قطعاً آمادہ نہیں۔ اگر وہ اسی پالیسی پر گامزن رہے تو انکی اپنی ہی حکومت کے راندہ¿ درگاہ بننے کے ساتھ ساتھ پورے جمہوری نظام کی بساط پھر سے لپیٹے جانے کا امکان بھی بڑھ جائیگا۔ اس صورتحال میں دانشمندی کا یہی تقاضا ہے کہ عدالتی فیصلوں کو بہرصورت تسلیم کرنے کی روایت ڈالی جائے جس کا تقاضا گزشتہ روز وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق نے بھی کیا ہے اور اداروں کے ساتھ منافرت کی فضا پیدا کرنے کے بجائے انتخابی عمل میں جانے کی تیاری کی جائے۔ آج جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رکھنے کی ذمہ داری قومی سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمران جماعتوں سمیت ان تمام فریقین پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے سلطانی¿ جمہور کے ثمرات عوام تک پہنچا کر ان کا جمہوریت پر اعتماد مضبوط بنانا ہے۔