مرزا غالب کی شاعری پر جو کچھ لکھا گیا ہے شاید ہی کسی اور تخلیق کار کے حصے میں آیا ہو اور یہ سراسر ان کا حق ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں جن گونا گوں صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انسانی فطرت اور مناظر قدرت کو سمجھنے والا جو منفرد دل انہیں عطا فرمایا تھا وہ صدیوں میں کبھی پیدا ہوتا ہے۔ غالب کی شاعری پر کوئی نئی بات کہنا بہت مشکل ہے لیکن ان کی شاعری زماں و مکاں کی قید سے آزاد اور ہر لمحے تر و تازگی سے مرصّع ہے۔ خود غالب نے کہا تھا:
ہوں گرمیِ نشاط تصّور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشں ناآفریدہ ہوں
ہماری معروضات کو قارئین کرام، اس گلشن ناآفریدہ کے ایک باسی کی کلامِ غالب کو سمجھنے کی ادنیٰ سی کوشش کہہ سکتے ہیں۔ ہم غالب کی شاعری میں ریاضی، معاشیات، فلسفہ اور تعلق بااللہ کے چند منفرد پہلوو¿ں پر روشنی ڈالیں گے۔ ریاضی ایک ایسا علم ہے جس کی باریکیاں اور نزاکتیں ملحوظ خاطر نہ رکھی جائیں تو زیر غور مسئلہ مزید الجھاو¿ اور پیچیدگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ریاضی میں اصولوں کا تعین کرنے کے دو بڑے طریقے ہیں: ایک انڈکشن (induction) (قیاس یا استقرائ) جو جزسے کل کی طرف جاتا ہے اور دوسرا ڈکشن (deduction) (استخراج یا استدلال) جو کل سے جز کی طرف جاتا ہے۔ غالب کی نظر دونوں طریقوں پر تھی، خود ایک موقع پر فرماتے ہیں:
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور نہ جزو میں ک±ل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہِ بینا نہ ہوا
اس شعر میں قیاس کا طریقہ (جز سے کل کی طرف) پنہاں ہے، لیکن ایک دوسری جگہ وہ طریقہ استدلال (کل سے ج±ز کی طرف) بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں:
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا
لیکن ہم کو تقلیدِ تنگ ظرفی منصور نہیں
دل ہر قطرہ ہے سازِ “انا البحر“
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
ہمارا تھیسیس یہ ہے کہ غالب کی شاعری کے محاسن میں فلسفہ اور ریاضی کہ چند ایسے امور پر روشنی پڑتی ہے جو ان کے کلام کو منفرد مقام کا حامل بنا دیتے ہیں۔ مثلاً غالب کا یہ کہنا کہ:
کب سے ہوں کیا بتاو¿ں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
ریاضی میں وہ تعداد یا مقدار جو گنی نہ جا سکے اسے لامتناہی، ان گنت (infinity) کہا جاتا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ نے اپنے اصحاب کے حوالے سے علیگڑھ یونیورسٹی کا یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ریاضی کی کلاس میں طلبا نے متذکرہ شعر بلیک بورڈ پر لکھ دیا اور مشہور زمانہ و مایہ ناز ریاضی دان استاد، جو بعد ازاں وائس چانسلر بھی رہے، جناب ڈاکٹر ضیاالدین احمد صاحب کا انتظار کرنے لگے، جو یہ کلاس پڑھاتے تھے۔ آپ تشریف لائے اور بورڈ کی طرف دیکھا اور شعر کے سامنے مساوات کا نشان بنایا اور یہ لکھ دیا: ”لا متناہی“ یہ ہے ایک ماہر ریاضی کا جواب کہ وہ عرصہ جس میں 'شبہائے ہجر' کی مدت بھی شامل ہو اس میں وقت کی مقدار کا تعین ممکن نہیں ہے۔ فیض نے بھی یہ بات عجیب انداز میں کہی ہے:
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سنگِ گراں ٹھہری ہے
ریاضی کی باریک بینی کا ایک علاقہ غیر یقینی صورتحال میں فیصلے کرنے سے ہے۔ یہاں امکانات اور اندازوں پر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور خطرات بھی مول لینے پڑتے ہیں۔ بے یقینی کو کم کرنے کیلئے ”اشاروں“ (signals) کا استعمال اور انہیں سمجھنے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ غالب کی بصیرت اور دوررس سوچ ان تمام اسرار و رموز سے بخوبی آگاہ تھی:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
ملاحظہ کریں کس دور بینی، نزاکت اور لطافت سے غالب نے ایک عموماً نہ ہونی والی بات کو ہوتا دیکھ کر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ کسی اور بات کا 'اشارہ' ہو۔ معاشی میدان میں غالب کا یہ شعر تو زبان زد عام ہے:
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
قرضوں کے جال میں پھنسنے کی عکاسی اس سے بہتر کوئی اور کیا کر سکتا ہے۔ وہ قرض جو میخواری (consumption) میں خرچ ہو اور جو مستقبل میں کسی آمدنی کو پیدا کرنے کا یا کسی مستقبل میں وصول ہونے والی رقم کیخلاف نہ لیا گیا ہو، اس کا انجام دیوالیہ پن میں نکلے گا۔
لیکن غالب اس علم معاشیات سے مرعوب نہ تھے جسے بعض ماہرین نے بھی 'تاریک' علم کہا تھا:
کل کے لئے کر آج نہ خِسّت شراب میں
یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں
لہذا وہ ماہرین جو تنگ دستی سے بچنے کیلئے بچتوں کا مشورہ دیتے ہیں، غالب ان سے اتفاق نہیں کرتے، غالب کے فلسفیانہ کلام پر بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن ہم یہاں غالب کے ایک ایسے شعر کا ذکر کریں گے جو فلسفے کی معراج کو پہنچا ہوا ہے اور جس نے علم کی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے جس پر کسی اور کی نظر شاید نہیں گئی:
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
جرمن فلاسفر ایمنوئل کانت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے عقل (reason) کی حدود کا تعین کردیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ کہ خالص عقل صرف خالص ریاضی (Pure mathematics) تک رہنمائی کرسکتا ہے، مثلاًًً اعداد کا جوڑنا (5+7=12) جو معروضیت پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی مسائل اس کے سامنے رکھے جائیں گے وہ موضوعات، احساسات پر مبنی ہوں گے اور نتائج کا تعین ان احساسات سے متاثر ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے وہ کہتا تھا کہ ہمارا علم، معروض سے مطابقت، نہیں رکھتا بلکہ معروض ہمارے، علم سے مطابقت‘ رکھتا ہے اس کلّیے سے یہ بات عیاں ہے کہ عالم محسوسات، محسوس کرنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے، لہذا محسوسات قابل اعتبار علم کے حامل نہیں ہوسکتے یہ بات بھی واضح رہے کہ کانت (1724-1804) نے یہ بات 1788 میں کہی تھی اور یہ کہ وہ ایک نامور یونیورسٹی کا پروفیسر بھی تھا۔اس تناظر میں جب ہم غالب کے متذکرہ شعر کا مطالعہ کرتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیونکر ایک شخص جو رسماً فلسفہ کا طالب علم بھی نہیں تھا اور نہ کسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا، اور نہ ہی اسے فلسفیوں کے ان قضیوں سے کوئی آشنائی تھی، اس کے باوجود اس کی وجدانی صلاحیتوں نے اسے یہ قوت بخشی کہ وہ اسقدر دقیق مسائل کی تہہ تک پہنچ گیا۔ غالب کہتے ہیں کہ جب شہود (دیکھنا)، شاہد (جو دیکھ رہا ہے) اور مشہود (جسے دیکھا جا رہا ہے) سب ایک ہیں تو پھر مشاہدہ (حصول علم) تو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہی بات کانت نے کم از کم پانچ دہائیاں پہلی کہی تھی لیکن اس ماحول میں جب نام نہاد روشن خیالی کا دور دورہ تھا اور نئے علوم تخلیق ہو رہے تھے۔ غالب کا اس حقیقت کو چند الفاظ میں ادا کردینا فلسفہ اور شاعری کی آخری حدود سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں ہم غالب کے تعلق باللہ سے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں۔ غالب اللہ کی محبت سے سرشار ہیں باوجودیکہ وہ شرعی تقاضوں کی پابندی نہیں کرتے تھے لیکن اس پر ندامت کا احساس رکھتے تھے:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و ز±ہد
پر طبعیت اِدھر نہیں آتی
لیکن اپنی مغفرت کی فکر غالب کو کھائے جاتی تھی اور اس کے بیان کے لئے انہوں نے عجیب و غریب دلائل وضع کر رکھے تھے جو ان کے کلام میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ہم صرف ایک خاص دلیل کا یہاں حوالہ دینگے جو غالب کی فکرِ عمیق کا شاہکار ہے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے
نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اپنے خالق سے کس شوخی سے یہ کہا جا رہا ہے کہ میں تو امتحان میں ناکام رہا ہوں، لیکن اگر میرا امتحان نہ لیا جاتا تو اس میں کیا حرج تھا۔ یہاں امید یہ ہے کہ اس شوخیِ ادا پر اللہ کی رحمت مغفرت فرما دے گی۔ کچھ یہی سوچ ان اشعار میں بھی کار فرما ہے:
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مِرے گن±ہ کا حساب اے خ±دا نہ مانگ
دریائے مَعاصی ت±نک آبی سے ھ±وا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہ±وا تھا
ناکردہ گناہوں کی حسرت کی بھی ملے داد
یا رب اگر نا کردہ گناہوں کی سزا ہے
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں
غالب ساری انسانیت کا سرمایہ ہے۔ انسانی تاریخ میں فن و تخلیق، فکر و خیال میں کمال حاصل کرنے والی شخصیات کی مختصر تریں فہرست میں بھی غالب کا نام ضرور آئیگا۔ علامہ اقبال نے غالب کے لیے کہا کہ:
فکر انساں پر تیری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پرِ مرغ تخّیل کی رسائی تا کجا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38