تقریریں اور فیصلے
آئین میں فوج اور عدلیہ کو عوامی تنقید سے باقاعدہ تحفظ دیا گیا ہے حتیٰ کہ آزادی رائے کو فوج اور عدلیہ پر تنقید نہ کرنے سے مشروط کرنے کے علاوہ توہین ِعدالت کو بھی آئینی طور پر جرم قرار دیا گیا ہے۔ آزادی رائے سے متعلق آرٹیکل انیس اور توہین عدالت سے متعلق آرٹیکل دو سو چار میں عدلیہ اور فوج کو عوامی تنقید سے جو تحفظ فراہم کیا گیا وہ شیشے کا گھر نہیں بلکہ اٹک کا وہ قلعہ ہے جس کے اندر بیٹھ کر دوسرے اداروں اور باہر کے مخالفین پر ردعمل کے خوف کے بغیر گولہ باری کی جا سکتی ہے۔بھٹو کی پھانسی سے لیکر بینظیر بھٹو کے قتل تک فوجی آمروں نے نہ صرف اسی آئین اور اپنے حلف کے برخلاف پارلیمنٹ کو نہ صرف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا بلکہ اپنے گناہوں پر اسی پامال شدہ آئین کی متعلقہ شقوں کا پردہ بھی ڈالا گیا۔
آج پھر پارلیمنٹ کو زبانی کلامی سپریم قرار دے کر یہی قوتیں آئین کے من پسند حصوں کا حوالہ دےکر عملی طور پر ایک ایسے وقت میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی جڑیں کاٹ رہی ہیں جبکہ چند ماہ بعد ہی ملک میں انتخابی عمل شروع ہونیوالا ہے۔ ایک طرف ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دنیائے اسلا م کی واحد فورس اپنی پیشہ ور صلاحیتوں پر مسلسل توجہ کی بجائے معیشت اور سیاست میں ٹانگ اڑاتی ہے تو دوسری طرف پچیس لاکھ سے زائد زیرالتواءمقدمات والی عدلیہ خود کو سیاسی معاملات میں الجھاتی نظر آتی ہے۔ اپنی اندرونی کمزوریوں سے توجہ ہٹانے کیلئے سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کو ایک آسان ہدف بنا لیا گیا ہے۔ منتخب سیاسی حکومت کو اس وقت تین محاذوں پر جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ سیاسی محاذ کی اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ عسکری اداروں پر آئینی کنٹرول اور عدالتی محاذ پر قانونی جنگ نے دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق بنا رکھا ہے۔ اس سے سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔ جاوید ہاشمی نے بہت پہلے ”جوڈیشل مارشل لائ“ کی نوید سنائی تھی جو آج حقیقت میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔
دو ہزار دو میں بنائی گئی قومی عدالتی پالیسی کمیٹی کا مقصد عدالتی نظام میں بہتری لا کر لاکھوں سائلین کو انصاف فراہم کرنا تھا۔ بدقسمتی سےاسی کمیٹی نے دو ہزار نو میں جو جامع پالیسیاں بنائیں اور پھر دو ہزار بارہ میں جو نظرثانی شدہ پالیسی کا اعلان کیا گیا، آج تک ان پالیسیوں پر ہونیوالی پیشرفت کا کسی کو علم نہیں۔ ان پالیسیوں پر پیشرفت سے متعلق عوام کو آگاہ کرنے کی بجائے جذباتی تقاریر سے عوام کی رائے بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افتخار محمد چودھری کو تو جلد ہی اپنی سیاسی اوقات کا اگلے الیکشن میں پتا چل جائیگا اور اس حوالے سے اگر کسی اور کو بھی غلط فہمی ہے تو وہ بھی الیکشن لڑ کر دیکھ لے۔ نہال ہاشمی نے یقیناً توہین عدالت کی ہو گی مگر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی کی ویڈیو میں جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ نہال ہاشمی کے الفاظ سے کہیں زیادہ قابل ِاعتراض نہ تھے؟ آئین کے آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ میں ترمیم سے متعلق دلائل میں پوچھا گیا کہ کیا پارلیمنٹ مذہبی جماعتوں سے ڈر گئی۔ کیا اب یہ پوچھنا توہین ِعدالت تو نہ ہو گا کہ کوئی خادم رضوی سے ڈر گیا؟ اسی طرح نہال ہاشمی نے تو شاید ایک کمزور انسان کی طرح بند کمرے کی کسی سیاسی محفل میں کوئی بڑھک لگائی تھی جبکہ جنرل مشرف نے جو کچھ اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں اور اہلخانہ کے ساتھ عملی طور پر کِیا، کیا وہ توہینِ عدالت نہیں تھا؟ اور پھر خودساختہ ترجمانوں نے آج تک عدالتی فیصلوں پر جو ردعمل دیے، کیا وہ عدلیہ کی تضحیک نہیں تھی؟ قومی عدالتی پالیسی کمیٹی نے اسی طرح کے اجلاسوں میں اس سے پہلے بھی بڑے بڑے فیصلے کئے تھے۔ مثلاً آئندہ کسی انتخابی عمل میں ماتحت عدلیہ اپنی خدمات نہیں دے گی۔ کیا اس فیصلے پر قائم رہا جائے گا؟ اور پھر ماتحت عدلیہ میں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ہائی کورٹوں میں خصوصی سیل کا انتظام اور ضلعی عدلیہ کی تقرری کے وقت انکے اثاثوں کا اعلان، کچہریوں میں ٹاو¿ٹ مافیا کے خاتمے کیلئے ضلعی بار اور سیشن ججوں پر مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل، سائلین کی شکایات پر کارروائی کیلئے ضلعی کچہریوں میں شکایات بکسوں کی تنصیب، ماتحت عدلیہ کے ججوں کے تحریری فیصلوں کے معیار کو جانچنے کے خصوصی نظام کی ترتیب اور غریب سائلین کی معاونت کیلئے مفت وکالت بذریعہ لیگل ایڈ کمیٹی کو یقینی بنانا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فاضل چیف جسٹس کی جانب سے عوام کو ان معاملات پر پیشرفت سے آگاہ کیا جاتا۔ بدقسمتی سے جو بیماریاں ہمارے سیاستدانوں اور بابو شاہی کو لگی ہیں، وہی بیماریاں ہمارے آئینی طور پر سب سے زیادہ تحفظ کے حامل اداروں کو بھی لگ چکی ہیں۔ پنجابی کے محاورے ”اللہ نیڑے یا گھسن“ کی تشریح کسی قانون دان سے بہتر کون کر سکتا ہے۔ ہماری معزز عدلیہ اور اسکے سربراہ شاید ایک سال میں وہ کچھ کرنا چاہ رہے ہیں جو جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف جیسے مطلق العنان حکمران کئی عشروں میں نہیں کر سکے۔ یوں لگتا ہے کہ اگر حکمران جماعت نے سینیٹ کے الیکشنوں اور اسکے چند ماہ بعد عام انتخابات سے پہلے گھٹنے ٹیک دیئے تو ملک میں انصاف کا راج قائم ہو جائیگا۔ اور تو اور اب نیب جیسے ادارے کے سربراہ جو سپریم کورٹ کے سابق جج بھی ہیں، وہ بھی سو موٹو کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا ہدف بہت واضح ہے مگر محض مساوات کا تاثر دینے کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کیخلاف بھی کچھ کارروائیاں ڈالی جا رہی ہیں۔ایسے میں خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر عام انتخابات میں عوام نے چند اپوزیشن سیاستدانوں اور اداروں کے اس ہنگامی اتحاد کو ووٹ کے ذریعے مسترد کر دیا تو کیا پھر آنے والی حکومت اپنی روایتی سیاسی مصلحت اور بزدلی کو چھوڑ کر ووٹ کے تقدس اور عوامی مینڈیٹ کا علم بلند کر پائے گی؟ اگر ایسا ہوا تو کیا سیاسی گدھ اور سازشی قوتیں اس عوامی مینڈیٹ کے سامنے سر تسلیم خم کریں گی؟ ابھی وقت ہے کہ ہم اداروں کو اور ملک کو بند گلی کی طرف نہ لے کر جائیں اور تقریریں سیاستدانوں کو اور فیصلے عوام کو کرنے دیں وگرنہ اب کی بار قائم کئے گئے آئین سے سنگین غداری کے مقدمات شاید اپنے منطقی انجام تک بھی پہنچ جائینگے۔