رائیونڈ اور رائیونڈ کی گردو نواح کی آبادی صحت و تعلیم کے بنیادی مسائل سے دو چار ہے، ضلعی حکومت اور صوبائی حکومت کے نمائندے تو یہاں بے شمار ہیں۔ اپنے تئیں وہ کام بھی کرتے ہیں لیکن ترجیحات میں فرق ہے۔ در اصل اعلیٰ سطحی قیادت کا کسی بھی علاقے کی ترقی میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ قیادت کا کام چنداں آسان نہیں تو مشکل بھی نہیں بس قائد کے دل میں خوف الٰہی کا ہونا اور عوام کے ساتھ مخلص ہونا بے حد ضروری ہے۔ رائیونڈ میں بیشتر کام قائدین کے علاوہ مخیر حضرات، سماجی راہنماﺅں اور صحافیوں نے اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔ بلکہ رائیونڈ کے صحافیوں میں رائیونڈ پریس کلب کے عہدیداران جیسا کہ صدر عاطف سبزواری، آصف نعیم شیخ، مہر لیاقت، مہر آصف، حارث خاں اور دیگر کی بدولت رائیونڈ کے عوامی و سماجی مسائل کی کچھ اسطرح نشاندہی کی جاتی ہے کہ حکام وقت کو الجھے مسائل حل کرنا ہی پڑتے ہیں۔ گورنمنٹ گرلز کالج رائیونڈ میں ایک دیا تھا جو کہ ٹمٹما رہا تھا۔ علم کی روشنی کا جب تیل ہی ختم کر دیا جائے تو روشنیاں کیسے ماند نہ پڑیں گی؟ کسی ملک کے ساتھ دشمنی لینے کا سب سے بڑا وطیرہ یہ ہے کہ اس ملک کو جاہل کر دیا جائے۔ نسل نو کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈبو دیا جائے۔ نوجوانوں کو ان کی ثقافت ، مذہب اور اقدار سے بھٹکا دیا جائے۔ جب ہم تعلیم کو اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بنائیں گے۔ جب ہم تعلیم کو اپنی ترجیحات میں نمبر1کا درجہ نہیں دیں گے اس وقت تک ہم نہ تو خود انحصاری کے راستے اپنا سکیں گے اور نہ ہی عالمی افق پہ با وقار انداز میں کھڑے ہو سکیں گے۔ قارئین! کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ملک کے اندر ایجوکیشنل ایمرجنسی کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں وسائل کی کمی نہیں.... وسائل جیسے تیسے پیدا ہو ہی جائیں گے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ وسائل کو اداروں کی بہبود اور نسل نوکی بھلائی میں استعمال میں لانا ایک کٹھن مرحلہ ہو گیا ہے ہم اپنے قائدین کو تنقید کا نشانہ بنانا بھی آسان سمجھتے ہیں لیکن میری ہمدردی ایسے قائدین کے ساتھ بھی ہے جو کہ خود انتہا کے مخلص و دیانتدار اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے سنجیدہ ہیں لیکن انہیں دوسرے ماتحتوں سے بھی کام چاہئے ہوتا ہے۔ مثلاً کسی بھی شخص کیلئے کمپیوٹر سسٹم کو خراب کر کے ، مرمت کی نئی پروپوزل بنانا، کاریگر کو ساتھ ملا کر اپنا حصہ بلز میں شامل کرانا اور اداروں کو نقصان پہنچانا شاید قائدین کیلئے مزید مسائل کا باعث ہوتا ہے ایسے اور اس سے بھی بڑے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ وسائل کی قدر کی جائے اور قومی مقاصد کی قربانی سے ذاتی مفاد کیلئے اپنے قائدین کو امتحان میں نہ ڈالا جائے۔ تعلیمی اداروں کو کمزور کرنا اور ذاتی مفادات کو حاصل کرنا در اصل ہمارے اپنے بچوں کے ساتھ نا انصافی اور ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا ہے۔ یہ عمل حب الوطنی کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ گزشتہ دنوں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین رائیونڈ میں تیسرا سالانہ کنووکشن منعقد ہوا اور صوبائی وزیر تعلیم جناب سید علی رضا گیلانی صاحب نے موقعہ پر موجود ڈائریکٹر کالجز لاہور ڈویژن جناب ظفر عنایت انجم صاحب اور مقامی صحافیوں کی موجودگی میں کالج کی طالبات کی سہولت کے لئے 20کمروں کی فوری تعمیر کیلئے پی سی ون تیار کر کے ڈیپارٹمنٹ کو بھجوانے کی تاکید فرمائی۔ جناب منسٹر صاحب واقعی چاہتے ہیں کہ پنجاب کے تمام کالجز کو لیبز اکپمنٹس فراہم کی جائیں۔ کالجز میں بی ایس پروگرامز کا معیاری تعلیمی سسٹم متعارف کرایا جائے۔ سٹوڈنٹس رزلٹس کی بہتری اور انرولمنٹ میں اضافہ کیا جائے۔ منسٹر صاحب کا جذبہ قابل قدر اور خیالات قیمتی ہیں تا ہم خیالات قیمتی و قابل قدر ہوں تو انہیں فوری عملی پیرائے میں ڈھال دینا چاہئے۔ ہمارے بچے ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ہمارے مستقبل کی امید ہیں۔ تعلیمی ادارے عبادت گاہوں کی مانند مقدس ہوتے ہیں کہ عبادت گاہوں میں ذکر ہوتا ہے تو درسگاہوں میں عملی تربیت ہوتی ہے جہاں نسلیں پھیلتی پھولتی اور روایات و ثقافت اور مذہبی اقدار کی آبیاری کی جاتی ہے۔ ریاست کا فرض نسل نو کی بہبود کیلئے بہترین تعلیمی سہولتیں بہم پہنچانا ہے اداروں کے سر براہان اور ان کے ماتحت افسروں کا کام سرکار کی دی گئی سہولتوں کو زیادہ سے زیادہ قومی خدمت میں استعمال میں لانا ہے۔ مگر دونوں اطراف خلوص شرط اول ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں۔ ورکشاپس ، دفتروں، بھٹوں، فیکٹریوں اور سڑکوں پر پڑھنے کی عمر والے بچے مزدوری کرتے نظر آتے ہیں تو دل دکھتا ہے۔ فیس کی ادائیگی نہ کر سکنے سے بچے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کے دہاڑی پر لگتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے وسائل اپنے طالبعلم بچوں پہ بھر پور انداز میں استعمال نہیں ہوتے تو غصہ آتا ہے۔ آخر کیوں ہم آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ ہمارے ملک کی 70فیصد ناخواندہ آبادی اپنی مرضی سے ناخواندہ نہیں۔ ہمارے ملک کے لاکھوں بچے سرکاری تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں پا سکتے تو اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔ بس ہمیں اپنے راستے درست کرنے ہیں ، اپنی ترجیحات میں تعلیم کو نمبر ون رکھنا ہے۔ اپنی نسل سے پیار کرنا اپنے مستقبل کی حفاظت کرنا، یہی بڑوں کی ذمہ داری ہے۔ ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ آیئے ہم اپنا آپ احتساب کریں۔ وسائل و مسائل کی بھی بات بعد میں کرتے ہیں پہلے ہم دیکھیں تو ہم اپنے بچوں کو فرض شناس ، پر خلوص اور جذبہ حب الوطنی سے معمور کر رہے ہیں؟ جنہیں قومی معمار کہا جاتا ہے کیا وہ حرص و طمع چغل خوری، بہتان تراشی، بد عنوانی، دروغ گوئی اور چالبازی کا کردار اپنے بچوں کے سامنے پیش تو نہیں کر رہے؟ کیا ہم منافقت کے نصاب اپنے بچوں کو تو نہیں پڑھا رہے؟ کیا ہم عمل سے دور رٹو طوطے تو پیدا نہیں کر رہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے آلہ¿ کار تو نہیں بنا رہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو سہل پسند تو نہیں بنا رہے۔
قوم کے معماروں کو قوم پہ رحم کرنا ہو گا یہ وطن قیامت تک آنے والے ہر بچے کی امانت ہے۔ خدارا ہم اس امانت کے امین بنائے گئے ہیں؟؟؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38