سپریم کورٹ 35 ہزار رفاہی پلاٹوں پر قبضے سے متعلق کے ڈی اے کی رپورٹ مسترد
کراچی(وقائع نگار) سپریم کورٹ نے کراچی میں 35 ہزار رفاہی پلاٹوں پر قبضے سے متعلق کے ڈی اے کی رپورٹ مسترد کردی۔ کے ڈی اے، کے ایم سی، کنٹومنٹس، واٹر بورڈ، کے پی ٹی سمیت دیگر اداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے سندھ حکومت کو فوری طور پر کے ایم سی، کے ڈی اے کو وسائل مہیا کرنے کا حکم دے دیا۔ بلدیاتی اداروں کی سست روی پر جسٹس مقبول باقر کا دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ وہ اشتہار آپ لوگوں کیلئے ہے’’ تمہارا صابن سلو ہے کیاسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل دو رکنی اسپیشل بینچ کے روبرو کھیل کے میدانوں پر قبضے سیاسی جماعت کے دفتر قائم کرنے سے متعلق سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے چیف سیکر یٹری سیکرٹری کو فوری طور پر طلب کرلیا۔ سماعت کے دوران مستقل کمشنرز کی تقرری سے متعلق سپریم کورٹ نے سندھ حکومت پر شدید اظہار برہمی کیا۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے آپ لوگ کس طرح حکومت چلا رہے ہیں۔ شہر کو ایڈہاک پر چلایا جا رہا ہے۔ جس شخص کو قائم مقام میونسپل کمشنر بنایا گیا اس کو کچھ پتہ نہیں۔ یہ صورتحال ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ اس قائم مقام میونسپل کمشنر کو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں۔ کراچی دنیاکے دس بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ تو اپنی عزت کا خیال رکھیں۔’’ سپریم کورٹ نے کے ایم سی رپورٹ پر میئر کے دستخط نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے کے ایم سی کے وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے اتنے بڑے بڑے ادارے چلا رہے ہیں اور آپ کو کچھ نہیں معلوم؟ عدالت نے ریمارکس میں کہا کیسے لوگوں کے پاس یہ شہر چلا گیا ہے کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ اے جی صاحب آپ کے سارے ادارے مفلوج ہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ کے ڈی اے ، واٹر بورڈ جس سے پوچھو کہتا ہے مفلوج ہیں کچھ نہیں کرسکتے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر کراچی کو اب نہ سنبھا لا ا تو کراچی کبھی نے سنبھلے کا۔ جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو سے مکالمہ میں کہا یہ کراچی نہیں بم ہے آپ کیوں نہیں سمجھ رہے۔ جسٹس گلزار نے کہا یہ صورتحال ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ کسی کو احساس نہیں کیا ہو رہا ہے۔ سندھ کا برا حال کردیا۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں 35 ہزار رفاعی پلاٹوں پر قبضے سے متعلق کے ڈی اے کی رپورٹ مسترد کردی۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے رپورٹ دیکھی ہے، رپورٹ میں کچھ نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے ہمیں سخت ایکشن لینے پر مجبور نہ کریں۔ بتایا جائے کراچی میں کتنے رفاہی پلاٹوں پر قبضے ہیں۔ عدالت نے کے ڈی اے حکام سے مکالمے میں کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایف آئی اے اور نیب سے تحقیقات کرائی جائیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ پھر نیب، ایف آئی اے آپ لوگوں کو بھی ساتھ لے جائے گی۔ ایکسپو سینٹر کے ساتھ رفاہی پلاٹ کیسے چل رہے ہیں۔ پی آئی اے والے کیسے شادی ہال چلا رہے ہیں۔ پی آئی اے سے پلاٹ واپس لیں اور پارک بنائیں۔ یونیورسٹی روڑ پر رات کو کھلی سڑک پر ہوٹل چلائے جا رہے ہیں۔ بتایا جائے سٹرک پر چلنے والے کتنے ہوٹل ختم کرائے۔ کے ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ کے ڈی اے نے 1659 پلاٹس واگزار کرا لیے ہیں۔ جس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا اس کے بعد ان پلاٹوں کا کیا کیا؟ کون ان کا تحفظ کرے گا؟ جسٹس گلزار نے ریماکس دیئے فٹ پاتھوں پر ہریالی کیوں نہیں کرتے۔ فٹ پاتھ یا اوپن جگہ کہیں ہریالی نہیں۔ یہ کس کا کام ہے۔ جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ باقی رفاہی پلاٹوں سے کب تک قبضے ختم کرائیں گے۔ ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے سمیع صدیقی نے کہا کہ ہمارے پاس مشینری کی کمی ہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے اگر مشینری نہیں تو ادارہ بند کردیں۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی آپ کو پیسے چاہیں۔ ایسے کام کرنا ہے تو ادارہ بند کردیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ لوگ آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری کہاں ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ چیف سیکرٹری شدید بخار میں ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر نے کہا کہ کے ڈی اے کو وسائل دینے کے لیے تیار ہیں۔ سندھ حکومت کے ڈی اے کو جلد ہی وسائل دے دے گی۔ ڈائریکٹر اسٹیٹ کے روسٹرم پر آنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے آپ پیچھے جائیں، ورنہ جیل بھیج دیتے ہیں۔ شہری نے سپریم کورٹ کو بتایا یہ ایکسی ان ہمارے پلاٹس پر آیا اور قبضہ مافیا کا ساتھ دیا۔ عدالت نے ایکسی ان عارف شاہ پر شدید اظہار برہمی کیا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ اس ایکسی ان کو اسی وقت جیل بھیج دیتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے آپ کے کتنے ڈائریکٹر کے ڈی اے آئے شہری کا ایک مسلہ حل نہیں ہوا۔ شہر کیسے چلائیں گے۔ جسٹس گلزار احمد نے ڈی جی کے ڈی اے سے مکالمہ میں کہا کہ آپ کی سوچ میں کتنی وسعت ہے معلوم ہو رہا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کے ایم سی کی رپورٹس کہاں ہیں۔ سندھ مدرسے والوں نے دوکانیں بنا رکھی ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ وہ دوکانیں نہیں چلا سکتے۔ایمپریس مارکیٹ، کھارادر، گارڈن کا علاقہ سب تباہ کردیے۔ گارڈن انہتائی خوبصورت علاقہ تھا۔اگر 7 کا زلزلہ کراچی میں آگیا تو کیا ہو گا کچھ اندازہ ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ میں تھے، اسلام آباد میں زلزلہ آیا، مگر کورٹ چلاتے رہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ایک چھوٹے سے پلاٹ پر 7، 8 منزلہ عمارت بنانے کی اجازت آخر کون دے رہا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس کی گلیوں کو تنگ کردیا گیا۔ طارق روڑ پر جا کر دیکھیں، ایک بلڈنگ دوسرے بلڈنگ سے ملی ہوئی ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ یہی ہال شاہراہ فیصل پر بھی ہیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ میں بھی بہت قیامتیں مچی ہوئی ہیں۔ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے معاملات بھی دیکھیں گے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب آپ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہم نااہلی، کرمنل غفلت دیکھ رہے ہیں۔ اگر کام نہیں کرنا تو ہٹ جائیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ افسران ڈرنا چھوڑ دیں یا نوکریاں چھوڑ دیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو کے ڈی اے اور کے ایم سی کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے واگزار کرائی گئی زمینوں کو محفوظ کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے سختی سے احکامات دیئے کسی بھی پلاٹ پر دوبارہ قبضہ نہیں ہونا چاہئے۔ عدالت نے ریماکس دیئے کنٹونمنٹس اور ڈی ایچ اے کے علاقوں میں بھی قبضے ہوئے ہیں۔ عدالت نے کنٹونمنٹس اور ڈی ایچ اے کے سربراہوں کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ سپریم کورٹ نے کے پی ٹی، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے ،ریلوے اور واٹر بورڈ سے بھی زمینوں کے قبضے سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ان اداروں کی کتنی زمین تجارتی مراکز کیلئے استعمال ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام اداروں سے رپورٹس طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔
جسٹس گلزار احمد