سیاسی فیملی کے چشم و چراغ
لیہ کی مشہور سیاسی فیملی کے چشم و چراغ اور چار بار ممبر قومی اسمبلی رہنے والے ملک نیاز احمد جھکڑ میرے بہت اچھے دوست ہیں جب وہ اسلام آباد آئیں تو تقریباً روز و شب ہمارے اکٹھے گزرتے ہیں ایک بار ان کے ساتھ ایک محفل میں گیا تو وہاں حفیظ اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد بھی ان کے ساتھ کئی بار ملنے کا موقع ملا لیکن بے تکلفی نہ ہو سکی۔ ایک دوبار مجھے ان کے دفتر جانے کا بھی موقع ملا۔ رفتہ رفتہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے لگے اور دوستی شروع ہو گئی۔ انہیں معلوم تھا کہ میں کالمسٹ ہوں۔ ایک بار انہیں گھر چھوڑنے جا رہاتھا، راستے میں کہنے لگے کہ یار ابھی تک آپ کا ایک کالم بھی نہیں پڑھ سکا۔ اتفاق سے اسی دن تصوف پر میرا کالم چھپا ہوا تھا۔ میں نے اخبار دیا اور انہو ں نے کالم پڑھنا شروع کر دی۔ جوں جوں وہ پڑھتے گئے ان کی آنکھوں میں آنسو آنا شروع ہو گئے۔ حتیٰ کہ جب کالم مکمل ہوا تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ کچھ لمحوں بعد کہنے لگے کہ آپ کا کالم پڑھ کر مجھے اپنے نانا جی یاد آ گئے۔ میں نے تجسس سے ان کے بارے میں پوچھا تو حفیظ اللہ ایک بار پھر روتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ اپنے وقت کے ولی تھے دور دور سے لوگ ان سے فیض یاب ہوتے تھے۔ مجھ پر بھی ان کی خاص نظر کرم تھی یہ انہی کی دعائوں کا صلہ ہے کہ مناسب تعلیم کے بعد تقریباً 40 سال قبل سیالکوٹ سے اسلام آباد آیا۔ بڑی تگ و دو کے بعد ایک وفاقی ادارے میں گریڈ 5 میں ایل ڈی سی بھرتی ہوا۔ سرکاری نوکری کے باوجود میں وقت نکال کے نانا جی کے پاس حاضری دینے جاتا۔ یہ انہی کے دعائوں کا اثر ہے کہ دو تین ماہ قبل میں اٹھارویں گریڈ میں ریٹائر ہوا۔ اسلام آباد میں اپنا گھر بھی بنا لیا ہے۔ ایک معقول رقم بھی موجود ہے اور بچے اچھی جگہوں پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجھ جیسے ہزاروں لوگ شاید ابھی تک کلرک ہی ہوں مگر یہ سب کچھ نانا جی کی نظرِ کرم ہے۔ ’’بابے‘‘ چونکہ میری کمزوری ہیں میں نے ان کی تفصیل پوچھی اورپھر ہر بار گفتگو کا موضوع نانا جی ہی ہوتے۔ چند دن قبل حفیظ اللہ نے ’’صحبتِ نایاب‘‘ نانا جی بارے ان کے ایک مرید کی لکھی ہوئی کتاب پیش کی۔ درج ذیل تحریر اسی کتاب سے لی گئی ہے۔
عبدالغنی صاحب 1896 میں ریاست جموں و کشمیر کے گائوں ’’باجے چک‘‘ میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے وقت آپ ہجرت فرما کر پاکستان آ گئے اور سیالکوٹ کے ایک نواحی قصبے ’’بونکن شریف‘‘ میں رہائش پذیر ہوئے۔ پرانے لوگ اور آپ کے ساتھی آپ کو ’’لالہ جی‘‘ جبکہ دیگر لوگ آپ کو ’’حاجی صاحب‘‘ کہتے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کے ہی ایک گائوں چکروئی میں ایک بزرگ مولوی محمد دین صاحب رہتے تھے۔ جلال پور جٹاں کے ایک گائوں ’’جنیڈر شریف‘‘ میں رہنے والے ایک بزرگ حضرت گوہر الدین احمد صاحب کے وہ مرید خاص تھے۔ چنانچہ حاجی صاحب کی ابتدائی تعلیم مولوی محمد دین صاحب کے پاس ہوئی اور پھر انہی کے توسط سے حضرت گوہر الدین صاحب کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ سیالکوٹ آنے کے بعد تواتر سے جنیڈر شریف آتے اور کئی کئی دن مرشد کی خدمت میں مصروف رہتے۔ اپنے پیروں کی اجازت کے بعد جب اپنے ڈیرے پر بیٹھنا شروع کیا تو صبح سے ہی عورتیں اور مرد اپنی مشکلات، پریشانیاں اور دکھڑے لے کر آ جاتے۔ کسی کو دعا دیتے۔ کسی کو پانی دم کر کے اور کسی کو کوئی وظیفہ بتا دیتے۔ گویا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ درمیان میں فرصت کے اوقات عبادت میں مصروف رہتے اور اکثر و بیشتر باہر کسی جنگل چلے جاتے۔ تمام نمازیں باقاعدگی سے پڑھتے اور ذکر اور فکر میں ساری ساری رات گزار دیتے۔ ہر کسی کو اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور نبی پاکؐ کی احادیث اور واقعات سنانے۔ ان کی سب سے بڑی تعلیم یہ تھی کہ اللہ کریم نے نبی پاکؐ کو ہمارے پاس بھیج کر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ چنانچہ جب موقع ملے ان کی آمد کی خوشیاں اور میلاد شریف منائیں۔ آپ نے چار حج اور تیرہ عمرے ادا کیے۔ اور ہر بار حضور پاکؐ کی خدمت میں وہاںرکھنے کی التماس کرتے مگر جواب یہ ہی ملتا کہ تم واپس جائو ہم نے تم سے بہت کام لینے ہیں۔ اللہ کریم اور نبی پاکؐ کی شان بیان کرتے کچھ واقعات تواتر سے لوگوں کو سناتے۔ کچھ واقعات یوں ہیں: ایک دفعہ ایک آدمی نے حج پر جانے کا ارادہ کیا۔ اس کا ایک ہی بچہ تھا جس کی عمر 9/10 سال تھی۔ بچے نے باپ سے پوچھا۔ ابا جان کہاں جا رہے ہیں؟ باپ نے کہا کہ میں اللہ کے گھر جا رہا ہوں۔ بیٹے نے کہا ابا جس کے گھر جائیں وہ خود بھی گھر پر ملتا ہے؟ باپ نے کہا، بیٹا ہم اللہ کے گھر حج کرنے جا رہے ہیں۔ ہم وہاں پر اس کے گھر کا طواف کریں گے۔ بیٹے نے کہا اب میں بھی ساتھ جائوں گا۔ بیٹے کی ضدر پر والد بے بس ہو گیا۔ دونوں باپ بیٹا گھر سے روانہ ہوئے۔ راستے میں بیٹا بار بار پوچھتا ابا اللہ کا گھر کتنی دور ہے۔ ہم کب تک وہاں پہنچ جائیں گے۔ دراصل یہ خدا کا عاشق تھا اور خدا کے گھر پہنچ کر اس کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔ جونہی حرم شریف قریب آیا تو بیٹے پر کپکپی طاری ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین میں سما گیا۔ باپ بہت پریشان ہوا اور کعبہ شریف کا غلاف پکڑ کر عرض کیا مولا میرے ساتھ یہ کیا ہو گیا۔ غیب سے آواز آئی کہ تو ہمار گھر دیکھنے آیا تھا لیکن تیرا بیٹا ہمیں دیکھنے آیا تھا۔ لیکن تیرا بیٹا ہمی دیکھنے آیا تھا۔ اب جہاں ہم ہیں وہ بھی وہیں رہے گا۔ ہم تمہیں جتنے بیٹے مانگو گے عطا کر دیں گے۔ حاجی صاحب اپنے پیارے حبیب جناب مصطفیؐ کی بے حد شان بیان کرتے فرماتے کہ آپ سراپا رحمت تھے، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ جانور ہوں یا درخت،ان کی رحمت دنیا جہاں کی ہر چیز پر ہوتی ہے۔ ایک دفعہ کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ جب ہجرت کے بعد آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو قرب و جوار سے گروہ در گروہ دربار رسالت میں حاضر ہوتے اور ہر طرف اسلام کا چرچا ہو رہا تھا۔ ایک دفعہ ایک گروہ میں یہودی لڑکی بھی درِ اقدس پر حاضر ہوئی۔ بظاہر وہ مسلما ن نہیں تھے۔ مگر دل سے اسلامی تعلیمات کی قائل تھی۔ اس کا شہودی باب نابینا تھا۔ ایک دن لڑکی نے باپ سے کہا کہ بابا مدینہ شریف میں ایک حکیم آیا ہے جس کے سرمے میں بہت شفا ہے کہ تو اس کا سرمرے آوں۔ باپ نے اجازت دے دی۔ لڑکی جب دربار رسالت صاحب میں حاضر ہوئی تو حضورؐ آرام فرما رہے تھے۔ لڑکی نے دبے پائوں آپ کے تعلین مبارک کے نیچے سے تھوڑی سی خاک اٹھالی۔ گھر آ کر سلائی سے باپ کی آنکھوںمیں لگائی۔ ابھی خاک مبارک آنکھوں سے مس ہوئی تھی کہ یہودی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ باپ خوش ہوا اور کہا کہ مجھے حکیم کے پاس لے چلو۔ لڑکی باپ کی کیفیت دیکھ کر خوش ہوئی اور رسول پاکؐ کے بارے میں بتایا۔ یہودی چونکہ منکر تھا چنانچہ آپؐ کا نام سنتے ہی چھری لے کر آنکھیں نکال دیں۔ کئی بار نکالنے کے باوجود آنکھیں واپس اپنی جگہ پر آ جائیں۔ اتنی دیر میںغیب سے آواز آئی یہ تو کملی والے حصے کا نعلین مبارک کی خاک کا صدقہ ہے اب یہ قیامت تک ختم نہیں ہو گا۔ ساتھ ہی والد کے دل کی آنکھیں بھی اللہ پاک نے کھول دیں اور حضور پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیٹی سمیت مشرف بہ اسلام ہوا۔ واقعات بے شمار اور کالم محدود ، دعا ہے کہ حاجی صاحب کے درجات اور بلند فرمائے۔ صاحبِ کتاب لیفٹیننٹ کمانڈر عبدالرحمن جامی چشتی اویسی سمیت میرے اور آپ سب پر اپنا کرم و فضل فرمائے اور نبی پاکؐ کی شفاعت حاصل ہو۔ آمین