پاکستان کا منفی تشخص اور میڈیا کی ذمہ داریاں
پاکستان کے عمومی حالات میںیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف جرائم سے متعلق خبروں کا ایک شور مچا ہوا ہے۔24 گھنٹے ٹی وی کے چینلز کو دیکھیں یا صبح کے اخباروں پر نظر ڈالیں تو سبھی، قتل ، اغوا ، ریپ ،بچوں اور خواتین سے متعلق جرائم ،فراڈ ،کرپشن اور دیگر مختلف قسم کے جرائم کا ذکرسنسنی خیز خبروں اور شہ سرخیوں میں ملتا ہے۔ اس کا ایک تاثر تو یہ بھی جاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر گراوٹ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔طاقت کا نشہ ،پیسے کی قوت ، تشدد کی ذہنیت ، اقدار کی کمزوری نے ہمارے معاشرے کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مجرموں کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے۔قانون کمزور اور عام آدمی بے بس ہوتا جارہا ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کی بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جرائم صرف ہمارے ملک میں ہو رہے ہیں اور جس چیز پر میڈیا کا باربار ذکر ہے کیا وہ ملک کا ایک منفی امیج پیش کر رہا ہے؟۔ کیا یہ صورتحال کسی منفی امیج سے کم نہ تھی کہ ابھی تک تو ہم اس بات کا رونا روتے رہے ہیں کہ دنیا ہمیں خواہ مختلف دہشت گردی سے جوڑتی ہے۔اب خود ہم رات دن جرائم کا اتنی بڑی شرومہ کے ساتھ ذکر کر کے کہیں یہ تو ثابت نہیں کر رہے ہیں ہم اخلاقی طور پر بھی انتہائی پست ہوچکے ہیں ؟۔کوئی بھی ذی شعور آدمی اس بات سے اتفاق نہیں کرے گا۔ یہ ضرور ہے کہ قانون کی عمل داری کمزور ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی طاقت ور اور مجرم ذہنیت کو بہت سی کھلی چھوٹ ملتی رہی۔لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ پورا پاکستانی معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بالکل طے ہے کہ پاکستان کا ایک عام شہری کسی بھی مہذب ملک کی طرح قانون کی بالادستی چاہتا ہے اور جرم کی سخت سے سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اسے کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کے لیئے تیار نہیں۔ اس میں ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ بڑھ کر مجرموں کو انجام تک پہنچانے کے لیئے پورے طور پر کمر بستہ ہے۔میڈیا بھی اسے فوکس کر رہا ہے اور اس کے منفی پہلو بھی اجاگر کر رہا ہے ،یہ ایک قابل تحسین بات ہے تاہم اسے پیش کرتے ہوئے خبروں ، تبصروں اور پروگراموں میں توازن کا پہلو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہیئے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ان خبروں کو پیش کرتے وقت خود خبر دینے والے اس کا بڑا موضوع بننے لگے یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی ٹی وی اینکر پر بے بنیاد خبریں دینے یا لوگوں پر الزامات لگا کر بدنام کرنے کے الزام نہ لگے ہوں۔ اس پر کورٹ میں کیسسز ہیں اور پیمرا نے بھی ایکشن لیئے ،پروگرام بند ہوئے اور اینکرز پر پابندی لگی۔ اس صورت حال میں عام شہری اور سوچنے والے ذہن پریشان ہیں کہ اب کسی کی بھی عزت ان غیر ذمہ دار ٹی وی اینکرز کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ اس سوچ کا پروان چڑھنا خود میڈیا جو کہ ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے کسی طور مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور صحافت کی حق گوئی کی طویل جدوجہد رہی ہے۔جو کم از کم چند افراد کے لیئے قربان کرنا کسی طور قابل قبول نہیں ہونا چاہیئے۔پہلا سوال تو یہ ہے کیا میڈیا کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی ادارے یا فرد کو کسی ایجنڈے کے تحت بدنام کریں ؟۔ آخر اس کے تدارک کے کیا طریقے ہیں ؟۔پہلا تو قانونی ہے جس میں آپ الزام لگانے والے کوہتک عزت قانون کے تحت سخت ترین سزا دلاسکتے ہیں۔عدالت اس بات کی پابند ہے کہ وہ 90 دن میں ڈیفیمیشن کیس کا فیصلہ کرے۔ دوسرا حکومت کی قائم کردہ ریگولیڑی باڈی ہے جو ایسے افراد یا چینلز کو سزا دے سکتی ہے۔تیسرا طریقہ جو دنیا میں رائج ہے وہ یہ ہے کہ خود میڈیا کا ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جسے وہ بہت مقدس مانتے ہیں اور اس پر رضاکار انہ طور پر اپنا فرض سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اسی ضابطہ اخلاق پر عمل کر کے وہ اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ایک وقار ، اعتماد اور عزت بخش سکتے ہیں جس کے بغیر میڈیا کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں۔ اسی پر عمل کر کے وہ کسی جمہوری ریاست کا چوتھا ستون کہلا نے کے لائق بنتا ہے۔اسی ضابطہ اخلاق کی ایک ضمنی اور انتہائی اہم ضرورت یہ ہے کہ چینلز کے مالکان لوگوں سے متعلق پرگراموں جن میں ،قومی اور بین الاقوامی خبریں شامل ہیں۔ ان میں ڈائریکٹرز ، ایڈیٹرز ، اینکرز اور رپورٹرز کو ملازمت دیتے وقت کم از کم پیشہ ورانہ تقاضوں پر اترانے کے لیئے تعلیمی اور تجربے کی شرائط رکھتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹی وی چینلز میں پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر ایسے لوگوں موقع دیا جاتا ہے وہ اینکرز جو چاہیں اپنے پروگرام میں کہہ دیں یا پیش کر دیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے بہت سے اینکرز اپنے آپ کو عقل کل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اینکرز کا کام اپنے پروگرام کے شرکا یا ماہرین کے ذریعے عام آدمی کو ایک متوازن معلومات فراہم کرنا ہے۔جب اینکرز کی ان غلطیوں کی جانب توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ دوسرے ملکوں کی مثالیں پیش کر کے اس کو حق بجانب ثابت کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ یہ ''میڈیا وار'' اور ''پروپیگنڈے'' کا زمانہ ہے۔ ایک غلط بات غلط بات ہی ہوتی ہے خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہو۔ اور غلط چیزوں کی پیروی کرنا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اپنے ملک میں ایک ذمہ دار میڈیا کو فروغ دینا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیئے خود ایک مثال بنے نہ کہ غلط مثالوں کی تقلید کرتے ہوئے ہمارے معاشرے کو ایک انتشار میں مبتلا کردیں۔اس سلسلے میں ہماری یونی ورسٹیز اور ان اداروں کو بڑا بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا، جو میڈیا کی تعلیم دینے کے ذمہ دار ہیں۔ ساری قوم کی نگاہیں اس وقت ان تعلیمی اداروں پر لگی ہوئی ہیں کہ آخر وہ کس قسم کی رہنمائی فراہم کررہے ہیں۔طلباوطلبات کی تربیت میں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کی نگرانی کے طور پر بھی۔