یہ 1995ءکے خزاں کے دن تھے میں نیو یارک میں مقیم تھا۔ ایک دن شہر کے علاقے©" جیکسن ہائٹس" سے جو پاکستانیوں، بھارتیوں، نیپالیوں، بنگالیوں، سکھوں اور ھسپانوی لوگوں کامرکز ہے وہاں سے "F" ٹرین کے ذریعے اپنے گھر آنے کیلئے "چرچ ایونیو"سے اتر کر کرانڈرگراﺅنڈ ریل کے پلیٹ فارم سے اوپر چڑھنا شروع کیا تو پہلے سانس پھولی اور پھر چکرآ گیا۔ سیٹرھیوں کی ریلنگ کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا۔ اسی حالت میں آہستہ آہستہ سٹرک پر پہنچا اور ٹیکسی لے کرگھر پہنچاجو ایک فرلانگ سے زیادہ نہیں تھا۔ دوست احباب اکثر اوقات ملنے کیلئے آتے رہتے تھے۔ ایک روز ایک دوست کے ہمراہ ایک ایسے ڈاکٹر صاحب ملنے کے لئے آئے جنہیں امریکہ میں پریکٹس کرنے کی ابھی اجازت نہیں ملی تھی اور وہ ٹیکسی چلا کر زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے میں نے موقع غنیمت جان کر انہیں اس صورت حال سے آگاہ کیا تو بڑے پریشان ہوئے اور کہا کہ فوری طور پر ہسپتال چلے جاﺅ۔یہ کہہ کر انہوں نے ایک نمبر"911"پرفون کیا۔لمحہ بھر میں ایک ایمبولینس دروازے پر آن موجود ہوئی۔ ایمبولینس کے عملہ کے ساتھ دو پولیس والے اور ایک فائرفائیٹر یعنی فائر بریگیڈ والا بھی موجود تھا یہ تو بعد میں معلوم ہواکہ ایمرجنسی کی کسی بھی صورت میں پولیس کے ساتھ فائر بریگیڈ کا ایک(FIGHTER) بھی موجود ہوتا ہے ان لوگوں نے مجھے ایمبولینس میں سوار کیا تو میں دنگ رہ گیا کہ اتنی آرام دہ ایمبولینس مستعد اور کوالیفائیڈ عملہ بیٹھتے ہی پہلے بخار چیک کیا پھر بلڈ پریشر ساتھ ہی درد کم کرنے والی ایک گولی زبان کے نیچے رکھی اور ایک ایک لمحے سے وائر لیس پر ہسپتال میں موجود ڈاکٹر کو صورت حال سے آگاہ کرتے رہے کیونکہ ابھی موبائل فون وجود میں نہیں آئے تھے ۔قصہ مختصر مجھے بحرا وقیانوس کے عین کنارے پر واقع "کونی آئی لینڈ"ہسپتال کی ایمر جنسی میں پہنچا دیا گیا اسی روز انجیو گرافی کی گئی۔دل کی تصویریں اور وڈیوفلم بنی۔فلم محفوظ کرنے کیلئے C.D بھی ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ مناسب علاج معالجے دوا دارو اور تاکید وپرھیز کے ساتھ ھسپتال سے رخصت کردیاگیا تین ڈاکٹروں کی ٹیم میںایک سری لنکن ڈاکٹر صاحب بھی تھے کہ جویہ جان کرخوش ہوئے کہ میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے ان کی مسرت کی وجہ یہ تھی کہ اس روز سری لنکا نے رانا ٹونگا کی قیادت میں گوجرانوالہ میں ایک ون ڈے میچ جیتا تھا اور ڈاکٹر صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ انہوں نے بڑے خلوص سے مجھے کہا کہ "دیکھو مسٹر کھوکھرابھی تمہیں کوئی دورہ وغیرہ نہیں پڑا۔ابھی تم جوان ہو، دل کے پٹھے مضبوط ہیں فوراً اوپن ہارٹ بائی پاس سرجری کروالو"یہ کہہ کر انہوں نے انجیو گرافی کی رپورٹ اور وڈیو فلم مجھے تھماکر کہا کہ اسے کھولنا نہیں۔ چند دنوں بعد میں نیویارک کے مرکزی علاقے "مین ہٹن"کی 23 ویں سٹریٹ پر واقع "بیل ویو"ھسپتال کے کارڈیالوجی وارڈ میں پہنچا تو عملے نے ہاتھوں ہاتھ لیا فوراً ایک خوبصورت کمرہ الاٹ کیا جہاں سے نیو یارک کا پورا منظر سامنے تھا۔اگلے روز ڈاکٹروں کی ٹیم آئی مجھے تسلی دی اور اپنی باری کا انتظار کرنے کی تاکید کے ساتھ واپس چلی گئی ۔پھر اکسیویں دن میری باری آئی گویا اس وقت تک نیو یارک میں بھی" بائی پاس سرجری" کی سہولت چند ہی بڑے ہسپتالوں میں میسر تھی ۔جس دن آپریشن ہونا تھا۔ٹیم کے انچارج سرجن میرے پاس آئے کچھ ادھر ادھر کی گپ شپ کی۔پھر بائی پاس سرجری کی پوری تفصیل سے آگاہ کیا۔اسی دوران یہ بھی بتایا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب ہمیں دل کے آپریشن کیلئے چھاتی کو کاٹنا نہیں پڑے گا۔بس کولہوں کے قریب ٹانگ سے ایک تاردل میں داخل کرکے پمپ سے ہوا بھرنے کا کچھ عمل ہوگا اور بندنالیاں کھل جائیں گی۔سٹنٹ کا بھی کوئی ذکر نہ تھا۔ صبح آپریشن تھیٹر شام کو I.C.Uدو دن بعد وارڈ اور دس دن بعد بہت سی مفت ادویات دے کر ہسپتال کی لیموزین میں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔وقت گذرتا رہا اور اللہ کے کرم سے اب بھی گذررہا ہے دل نے البتہ کوئی دغا نہیں دیا۔اب بھی اس کی عنائت سے معمول کے مطابق دھڑک رہا ہے۔ ایک روز لاہور میں دل کی دھڑکن تھوڑی بے ترتیب ہوئی تو خوش قسمتی سے چوہدری پرویز الہی ریسکیو 1122کا ڈول ڈال چکے تھے۔یہ نمبر ملایا تو پانچ منٹ کے اندر اندر ایمبولینس حاضر تھی جو ایمبولینس نیویارک میں دیکھی تھی اس سے قدرے بہتراسی طرح کا تجربہ کار ومستعد عملہ دیکھ کر ہی دھڑکن کی بے ترتیبی ختم ہوگئی۔"پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی"جیسا عالیشان ہسپتال ۔اعلی پائے کے ڈاکٹر۔بہترین خدمات اور صاف ستھرے کمرے ۔واقعی بڑی شان تھی۔"P.I.C"کی ۔میرے دل میں ایک سٹنٹ ڈالا گیا جوابھی تک بارہ سال گزرنے کے بعد بھی درست حالت میں کام کررہا ہے بل کی ادائیگی کا موقع آیا توکل رقم کی بجائے آدھی ادا کرنا پڑی۔ پرویز الہی حکومت میں پنجاب انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاءسے تمام خدمات کی فیس میں پچاس فیصد رعائت دی جاتی تھی ۔بلکہ یہاں تک کہ ان کیلئے استقبالیہ کاﺅنٹر بھی عام مریضوں سے الگ تھا پھر وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کے ذہن میں دل کے مریضوں کےلئے ایک اور اچھے اور وسیع ہسپتال کا سودا سمایا تو انہوں نے وزیرآباد کا انتخاب کیا۔کیونکہ یہ شہر گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، منڈی بہاﺅالدین کے قریب ترین اور حافظ آباد، نارووال سے معمولی فاصلے پر تھا۔ ہسپتال بن گیا۔ افتتاح بھی ہوگیا اس دوران افتخار چوہدری اور پرویز مشرف کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جس میں طاقت جنرل کیانی اور دولت نواز شریف نے جھونکی اور "وزیر آباد کارڈیالوجی ہسپتال "اس منحوس لڑائی کی نذر ہوگیا اربوں روپے سے بننے والے اس ہسپتال کی دگرگوں اور خستہ حالی کا دکھ اسے ہی ہوسکتا ہے جس نے اس کی بنیادوں میں اپنا خون جگر شامل کیا ہو گذشتہ دنوںجب اٹھائیس جنوری کو ڈاکٹر زین بھٹی کی پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت کے موقع پر چوہدری صاحب ہمارے دوست طارق بشیر چیمہ۔راجہ بشارت اورچوہدری ظہیر الدین کے جلومیں گوجرانوالہ میں ایک بڑے ورکرز کنونشن میں آئے تواس ہسپتال کا ذکر کرتے ہوئے ان کا دکھ ان کے الفاظ سے ظاہر تھا جب انہوں نے کہا کہ اگر شہباز شریف کو میرے نام کی تختی سے شرمندگی ہوتی ہے تو بیشک وہ اپنے نام کی تختی لگالیں جس پر پنڈال میں موجود لوگوں نے کہا کہ چوہدری صاحب نام تختی پرنہیں دلوں پر لکھے ہوتے ہیں موقع ملا تو وقتا فوقتا چوہدری پرویز الہی کے دیگر کارناموں اور معرکوں پر لکھتا رہوں گا تاکہ حکمرانوں کو معلوم ہوکہ حکومت دلوں پر کی جاتی ہے ۔اور حکومت ہی کی جاتی ہے دولت نہیں بنائی جاتی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38