بلا شبہ اسلام کے اصول حیات نہایت پر کشش ‘ قابل عمل ‘ ہر لحاظ سے بے داغ اور قابل تقلید ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ دور کی الحادی تہذیب کی تباہ کاریوں سے اسلام ہی انسانیت کو نجات دلا سکتا ہے لیکن اس تلخ حقیقت سے کیسے صرف نظر کیا جائے کہ یہ اصول اب صرف کتابوں میں موجود ہیں۔ امت مسلمہ ان کو ترک کر کے اغیار کے دروازے پر کشکول بدست کھڑی ہے ۔ علمائے امت کی اکثریت جدید زمانہ کے مسائل کا تجزیہ کرنے اور امت کو شاہراہ مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے ۔ وہ فرقہ وارانہ کشمکش میں الجھ کر ایک دوسرے کیخلاف کفر کے فتوے جاری کرنے میں مصروف ہے جبکہ باطل قوتیں ان کو اختلافات ‘ انتشار اور تخریب کاری کے ذریعے ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ایسی صورت حال کے پیش نظر اقبال نے کہا تھا ۔
دین کافر ‘ فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا ‘ فی سبیل اﷲ فساد
علمائے امت سے ہٹ کر جدید یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونیوالے کارفرما طبقہ کی طرف نظر دوڑائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ حضرات مقصد حیات سے محروم ‘ دانش و بصیرت سے تہی دست ‘ حالات حاضرہ کے چیلنجز سے بے خبر ’’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘ کے مسلک پر عمل پیرا ہیں۔
دنیا بھر کے مسلم ممالک کی قیادت کو دیکھیے … ہر جگہ ہولناک قحط الرجال کی کیفیت نظر آتی ہے ۔ آج امت مسلمہ چھوٹے بڑے ستاون ملکوں پر مشتمل ہے ۔ ان ملکوں کا نقشہ استعماری قوتوں نے خلافت عثمانیہ کے بعد ترتیب دیا تھا تا کہ کوئی ایک ملک بھی ان کیلئے خطرہ نہ بن سکے ۔تقسیم کرنے کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ اسی حکمت عملی سے انڈونیشیا اور پاکستان تقسیم ہوئے اور عالمی استعمار کی نظر اب مشرق وسطیٰ کے ممالک کو مزید تقسیم کرنے پر مرکوز ہے ۔ امت مسلمہ کا کوئی لیڈر ان معاملات پر بولتے ہوئے نظر نہیں آتا ۔ کوئی لیڈر ایسا نہیں جو ان ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکے۔ ان سب حضرات کی آنکھوں کے سامنے مغربی اقوام صدیوں کے اختلافات کو بھلا کر ’’ یورپی یونین ‘‘ کی صورت میں متحد ہو گئیں ۔ مشترکہ کرنسی جاری کی ۔ ویزوں کا تکلف ختم کر دیا ۔ اسلامی کانفرنس ( او ۔ آئی ۔ سی ) کا قیام دنیا بھر کے مسلم عوام کے خوابوں کی ایک دلکش تعبیر تھی لیکن ملی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کے پجاریوں نے اسے غیر موثر بنا دیا۔ آج روئے زمین پر کوئی ایسی حکومت موجود نہیں جس کا نظام اسلامی تعلیمات کے مطابق چلایا جا رہا ہو ۔ مغربی ممالک میں ’’ ویلفیئر سٹیٹس‘‘ قائم ہیں جن میں وسائل سے محروم ہو جانیوالوں کو پورا تحفظ حاصل ہے۔ ایساتو کہیں بھی نہیں ہوتا جس طرح کا سلوک ’’ تھرپارکر ‘‘ کے شہریوں کیساتھ روا رکھا گیا جس میں ایک سو پچاس بچے بھوک کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ اور حکمران کلچرل میلہ لگائے داد عیش دیتے رہے۔
اسلامی معاشرہ میں طبقاتی تفاوت کا کوئی تصور ہی نہیں رہا۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کے مبارک دور میں تو آپ کا معیار زندگی عام آدمی سے کم تر تھا۔ فتوحات کے بعد جب سرمائے کا رخ دارالخلافہ کی طرف ہو گیا اور اونٹوں پر لدے ہوئے سامان کے قافلے مدینہ طیبہ میں اترنے لگے تب بھی کاشانہ نبوت میں کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور میں یہ نمونہ عمل جاری رہا ۔ حضرت عمر ؓ کا مشہور قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر جائے تو عمر ؓ اس کیلئے جواب دہ ہوگا ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج ہم حضور صلی اﷲ علیہ و سلم اور آپ ؐ کے صحابہ کرام ؓ سے زبانی کلامی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں لیکن ہمارا عمل اسکے برعکس ہے۔
آج امت مسلمہ افرادی قوت سے مغربی اقوام پر بر تری رکھتی ہے۔دنیا کے 85فیصد پٹرول کے ذرائع پر قابض ہے ۔ ایک ایسا خطہ زمین اسکے پاس ہے جو پیداواری اعتبار سے بے حد زر خیز ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں کے چالیس کھرب ڈالر یہودی سود خوروں کے بینکوں میں جمع ہیں اور اسی پیسے سے وہ مسلم ممالک میں تخریب کاری کا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔اسی پیسے سے وہ مسلم دنیا سے ایجنٹ خریدتے ہیں اور دہشت گردی کروا کر ان ممالک کو عدم استحکام سے دو چارکرتے رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال کو بدلنے کیلئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ آج ہمیں ایک اور امام غزالی ؒ جیسے صاحب نظر لیڈر کی ضرورت ہے جو ایک نئے نظام فکر اور فلسفہ کی بنیادیں استوار کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو ‘جو سائنسی فتوحات اور قدیم علمی سرمایہ کے درمیان ایک متوازن ‘ مربوط ‘ ترقی پسند اور قابل عمل رشتہ قائم کرتے ہوئے امت کو واضح لائحہ عمل دے سکے۔ تو کیا ایسے ’’دانائے راز ‘‘کے میسر آنے تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ۔ زندہ قومیں اپنی موجود قوت کو منظم کر کے جدوجہد کا آغاز کر دیتی ہیں ۔ ہماری صفیں بھی صاحب علم اور صاحب نظر لوگوں سے خالی نہیں ہوئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میسر قوت کو منظم کر کے صحیح راستے کا انتخاب کیا جائے۔پاکستان عالمی اوباشوں کی ریشہ دوانیوں کی زد میں ہے ۔ دشمن کا واحد نصب العین یہ ہے کہ اسکے منہ سے ایٹمی دانت نکال دئیے جائیں۔ اس مقصد کیلئے انکی خفیہ ایجنسیاں دن رات کام کر رہی ہیں ۔ کیا ان کا توڑ کرنے کیلئے ہماری قوم نے بھی کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
(اقبال )
پھر معرکہ بدر زمانے کو ہے درپیش
پھر ترے مٹانے کو ہیں تیار جفا کیش
ڈر ہے کہ تیرا مال نہ لٹ جائے کم و بیش
اسلام کے در پے ہیں جفاکار و بداندیش
الہام ہے شاعر کا یہ پیغام نہیں ہے
بیدار کہ سونے کا یہ ہنگام نہیںہے
………………… (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38