ان سے ہاتھ ملائیں، توقلب و ذہن میںبجلیاں سی کوند جائیں گی، یہ بجلیاں محبت کی ہیں، جذبہ حب الوطنی کی ہیں، خدمت انسانیت کی ہیں اور ملک کی سب سے بڑی لیبر یونین کے لاکھوں کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لئے تڑپ کی مظہر ہیں۔ملک میںبجلی ہے یا نہیں مگر خورشید احمد کی انگلیوں کی پور پور میں گرڈ اسٹیشن نصب ہیں۔
وہ پاکستان ہی میںنہیں ، دنیا بھر میں محنت کشوں کی پہچان ہیں۔ بابائے لیبریونین بشیر بختیار کے ہم سفر اور مرزا محمد ابراہیم کے ہم نفس۔سادگی، عاجزی، انکسار اور پاکیزگی کا مجسم نمونہ، لبوں پر دلا ٓویز مسکراہٹ رقصاں، محبت بھرے انداز میں،سینے سے لگانے کے لئے ،ہمہ وقت پہل میں کوشاں۔ایک مکمل انسان۔ شب وروز خورشید جہاں تاب کی طرح، روشن و تاباں۔
دوستوں کی محفل میں انہوں نے کڑوی کسیلی بھی سنیں۔اور جواب میں بھر پور تازگی اور فرحت کا لہجہ اپنایا۔کہنے لگے ہمارے کارکنوں کوپچاس، سو، ڈیڑھ سو یونٹ فری ضرور ملتے ہیں لیکن یہ اس زمانے کا فیصلہ ہے جب گھر میںنہ ٹی وی تھا، نہ فریج، نہ استری، نہ کمپیوٹر اور نہ دیگر بجلی خرچ کرنے والے آلات، برسہا برس سے اس کوٹے پر نظر ثانی نہیں ہوئی۔ایک بلب اور ایک پنکھے کی ضرورت کے برابر، کیا یہ عیاشی ہے۔
بجلی چوری کا ذکر چلا تو الزام ان کے کارکنوں پر آیا، فرمانے لگے۔میں کسی کی قسم نہیں کھا سکتا لیکن چوری وہ کرتے ہیں جو سینہ زور ہیں۔ہمارا میٹر ریڈر یا میٹر انسپکٹر ذرا اعتراض کرے تو وڈیرے ، صنعتکار ، زمیندار انہیں نجی جیلوں میںبند کر دیتے ہیں یا ان پر فائر کھول دیتے ہیں یا ان پرجعلی اور بے سروپا مقدمے بنو ادیتے ہیں ۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو اور ہر کوئی دھونس چلانے اور استحصال کا عادی ہو، وہاں ہمارے عام کارکنوں کاکوئی تحفظ کرنے والا نہیں، کم از کم قانون تو ان کاساتھ نہیں دیتا۔
ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ، جب انہوںنے کہا کہ کبھی آپ نے بارش، دھوپ، آندھی اور رات کے گھپ اندھیرے میں کھمبوں سے لٹکے ہوئے کارکنوں کی حالت پر غور کیا ہے، دنیا میں حفاظتی آلات کا ایک معیار مقرر ہے مگر ہمارے کارکن ننگے ہاتھوں کام کرنے پر مجبور ہیں اورتقدیر نے ذرا سا ساتھ چھوڑا تو ایک جیتا جاگتا انسان کوئلہ بن کر تاروں میں الجھ جاتا ہے،کیا کوئی اعلی حکومتی منصب دار، ان کے ماتم کنان عزیزوں کے آنسو پونچھنے گیا ہے، کبھی نہیں۔خورشید احمد نے واضح کیا کہ صرف واپڈا ہی واحد ادارہ نہیں جو کارکنوں کو مفت یا سستی بجلی فراہم کرتا ہو، ملک کے دیگر سرکاری اور نجی ادارے بھی اپنے کارکنوں کو مراعات فراہم کرتے ہیں ، فیئر پرائس شاپس سے لے کر بنے بنائے گھر یا قیمتی پلاٹوں کی الاٹمنٹ ، مفت علاج یا بچوں کے لئے تعلیمی سہولتوںتک، کیا کیا گنوایا جائے۔واپڈا کے کارکنوں کو اس کا عشیر عشیر نہیں ملتا۔
کوئی سوچے کہ ملک کے طول وعرض میں بجلی کی سپلائی کا وسیع نظام کیسے وجود میں آیا، واپڈا کے کارکن ۔۔دریاست کہ صحراست ، تہہ وبال پر ما ست۔۔ کی زندہ اور عملی تعبیر ہیں ، یہ پاک فضائیہ کا ماٹو ہے ، مگر واپڈا کے کارکن کھلے میدانوں، دریائوں اور اونچے نیچے پہاڑی سلسلوں میں بجلی کے چھوٹے بڑے اور دیو ہیکل کھمبے نصب کرتے ہیں اور چو بیس گھنٹے ان کی نگرانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔
بجلی کہاںغائب ہو گئی۔اس سوال نے جیسے ان کے دل کے تاروں کو چھیڑ دیا ہو۔جناب خورشید احمد نے بتایا کہ ہماری پہلی غلطی یہ ہے کہ ہم نے ہائیڈل بجلی کا راستہ چھوڑ دیا اور تھرمل بجلی گھر لے آئے، پھر ان کی جگہ رینٹل منصوبوںنے لے لی۔ دنیا میںیہ مہنگے تریں منصوبے خیال کئے جاتے ہیں۔اور ہماری شرائط بھی نرالی تھیں ، بجلی پیدا ہو یا نہ ہو، اس کے لئے حکومت کو ادائیگی کرنا ہو گی، یہی ظالمانہ شرط گردشی قرضوں کی بنیاد بنی۔
اور یہ انکشاف کہ واپڈا کے اپنے تھرمل یا گیس پر چلنے والے بجلی گھر بند پڑے ہیں ، حکومت ان کو گیس فراہم نہیں کرتی مگر نجی بجلی گھروں کو مسلسل گیس دی جا رہی ہے،انہوںنے اس امر پر بھی انگلیاں اٹھائیں کہ پانچ سو ارب کے قریب گردشی قرضوں کی شتابی سے ادائیگی اور اب پھر دو سو ارب کے گردشی قرضے عوام اور ملکی معیشت کے لئے پریشان کن بنتے جا رہے ہیں۔
ایک درد مند انسان جو محض لیبر لیڈر ہوتا تو اسے اس طرح کے سوالات کھڑے کرنے کی ہر گز ضرورت نہ ہوتی، وہ ایک بے تاج بادشاہ کی طرح نسبت روڈ پر واقع بشیر بختیار لیبر ہال کے لازوال تخت پر جلوہ افروز رہ سکتا ہے ۔
یہ سوال بھی دلوں میں چھید کر گیا کہ سندھ طاس کمیشن میں پاکستان کے نمائندے چپ سادھے بیٹھے رہے، ہم عالمی فورم میں بر وقت نہ جا سکے، اور جب گئے بھی تو ہم نے دلائل سے اپنا حق نہیںمانگا چنانچہ ہار کر واپس گھرا ٓ گئے۔ہمارے ارباب بست و کشاد لمبی تان کر سوتے رہے، بھارت ڈیم پر ڈیم بناتا چلا گیا اور ہم خواب خرگوش سے ابھی تک نہیں جاگے، چناب اور جہلم کا پانی بھی بھارت کے قبضے میں ہے ، وہ پاکستان کو خدا نخواستہ صومالیہ اور ایتھوپیا کی طرح ریگستان میںتبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔اس بد قسمتی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ملک میں ایک ڈاکٹر مجید نظامی ہیں جو قوم کو جگانے کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف ہیں، وہ کہتے رہتے ہیں،یاد دلاتے رہتے ہیں، کچھ کر لو میرے ہم وطنو!ورنہ خدا نخواستہ مئورخ لکھنے پر مجبور ہو گا کہ ہم رہنے والے تھے اسی اجڑ ے دیار کے۔
کالا باغ ڈیم کا ذکر چھڑا۔ خورشید صاحب نے کہا، یہ ڈیم بہت پہلے بن جا نا چاہئے تھا، اس کے بغیر ہماری معیشت اور زراعت کا جنازہ نکل چکا ہے۔اب بھی ہمیں چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے تمام آبی ڈیم اور اور ان پر پاور ہائوس بنا لینے چاہئیں۔بڑے ہائیڈل ڈیموں کی منصوبہ بندی بھی ساتھ ساتھ جاری رہنی چاہئے اور جیسے جیسے ملکی خزانہ اجازت دے توان کی تکمیل کر لینی چاہیے، ساری دنیا اگلی نسلوں کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ صرف آج کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔
خورشید احمد بر صغیر مںمحنت کشوں کی تحریک کے ہمیشہ روح رواں رہے، وہ کسی اور ملک میں ہوتے تو انہیں محنت کشوں کی خدمت کے صلے میں نوبل انعام ملتا ، ان کا نام گنیز بک آف ریکارڈ میں نمایاں طور پر لکھا جاتا، ان کی تصنیف۔۔ لیبر تحریک کا ماضی و حال۔۔بزبان انگلش مجھے عطیہ میں ملی ہے اور ا سکے سرورق پر خورشید صاحب کی 1936 کی ایک تصویر چسپاں ہے ، وہ ایک اونٹ پر سوار ہیں اور محنت کشوںکے قافلے میں شامل۔ ان کاا نٹر نیشنل لیبر آرگنا ئزیشن میں ڈنکا بجتا ہے۔ وہ اس ادارے کی گوورننگ باڈی کے منتخب رکن ہیں۔واپڈا لیبر یونین میں وہ ایک لاکھ تیس ہزار محنت کشوں کی کمان کر رہے ہیں اور ورکرز فیڈریشن میںنو لاکھ محنت کشوں کو ان کی سر پرستی کا اعزاز حاصل ہے۔
اتنی بڑی فورس کو خورشید صاحب نے ہمیشہ قانون کے تابع رکھا ہے ۔پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024