نشہ۔۔۔۔ میں جائزو ناجائز کی تمیز فراموش
پاکستانی معاشرے میں جہاں دوسری بہت سی برائیاں ہیں وہاں منشیات کی لعنت بھی معاشرے کے ایک طبقے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ فیصل آباد میں منشیات کا استعمال کرنے والوں میں بہت اضافہ ہورہاہے اب صورتحال یہ ہے کہ نشہ کے عادی افراد منشیات کی ایک پڑی کیلئے ایک دوسرے کوقتل کرنے کے بھیانک جرم میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔چندروز قبل تھانہ ساہیانوالہ کے گاﺅں نمبر242ب میں چند نوجوان منشیات کا استعمال کرنے والوں کو22سالہ ظہیر سے اس بات پر جھگڑا ہوگیا کہ ظہیر کے پاس ہیروئن کی چند پڑیاںموجود تھیں جن کے متعلق اس نے خود ہی نشہ کی حالت میں دوستوں کو بتا دیا تھا۔ ساتھیوں نے اس سے ہیروئن کی ایک ایک پڑی کاتقاضا کردیا۔ ان کانشہ ٹوٹ رہاتھا لیکن ظہیر کونشے کی حالت میں بھی اتنا ہوش تھا کہ وہ ہیروئن کو اپنے لئے چھپا کر رکھنا چاہتاتھا جس پر اس کے ساتھی لڑکوں نے اسے گلے میںرسی کاپھندا ڈال کر موت کے گھاٹ اتار دیااور وہ موقع پرہی دم توڑ گیا جبکہ اس کے ساتھی فرار ہوگئے۔ ضلعی پولیس کی طرف سے فیصل آباد میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران191افراد کوگرفتار کیاگیا جن سے کسی نہ کسی قسم کی منشیات پکڑی گئی۔ اس چھاپہ مار پارٹی نے مجموعی طورپر 199لیٹر شراب برآمد کی ہے۔ کوریاں روڈ پرپولیس پارٹی نے ایک شخص پر ویز میں مدہوش پکڑا اوراس نے انکشاف کیا کہ اس کے پاس کئی لیٹر شراب موجود ہے۔ پولیس نے اس سے58لیٹر شراب برآمد کی۔ سہیل آباد کے ملزم افضل سے پولیس نے60لیٹر شراب اورملزم عامر سے 56لیٹر شراب برآمد کی جبکہ مدینہ ٹاﺅن کے چکڑ چوک کے ندیم کے قبضہ سے25لیٹر دیسی شراب برآمد ہوئی ۔شہر میں شراب کانشہ کرنے والوں میں توشہر کی اشرافیہ بھی شامل ہے لیکن اشرافیہ کے یہ لوگ شراب کوذخیرہ نہیں کرتے‘ اس کو جیسے تیسے‘ مہنگے داموں خریدتے ہیں ان افراد کو شراب یا توشہر کے ایک بڑے ہوٹل سے چھوٹے عملے کے ذریعے فروخت کی جاتی ہے یا وہ ولائیتی شراب کی بوتلیں ان کرسچین افراد سے مہنگے داموں خریدتے ہیں ۔فیصل آباد میں شراب سب سے دیرینہ نشہ آور شے ہیں اور اب تومنشیات کے عادی افراد نے خود کو دنیا ومافیا سے بیگانہ کرنے کیلئے سگریٹ‘ شیشہ‘ حقہ‘ پان ‘ نسوار‘ گٹکے اور تمباکو سے محص وقتی پرسکون حاصل کرنے کاسامان ہے لیکن انسان شراب ‘ چرس‘ افیون‘ کوکین اور ہیروئن جیسی ہلاکت خیز منشیات کااستعمال محض وقتی سکون کیلئے نہیں کرتا بلکہ یہ اشیاءہرنشئی کی زندگی میں اس طرح شامل ہوجاتی ہیں کہ ا سکے لہو میں شامل ہو کر اس کی زندگی کوموت کی منزل سے دو چارکردیتی ہیں ۔شراب کو تمام برائیوں کی ماں کہاجاتاہے جو نہ صرف انسان کے دل اور جگر پر وار کرتی ہے بلکہ اس رشتوں کے تقدس سے بھی بیگانہ کردیتی ہے۔ اسی طرح چرس‘ افیون اور ہیروئن جیسی جان لیوامنشیات انسان کو لے ڈوبتی ہیں جس سے اس کی ساری ذہنی ‘ جسمانی اور اعصابی صلاحتیں آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ آج دنیا کی بڑی آبادی منشیات کی عادی ہوچکی ہے جس میں مرد‘ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ منشیات کااستعمال انسانیت کیلئے زہر قاتل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے کس طرح ختم کیاجاسکتاہے۔ جب چند بااثر شخصیات اور اہم افراد کے ہاتھوں کسی معاشرے میں نشہ آور چیزوں کی کھلے عام سرپرستی ہوگی تو پھر کمزور ایمان کے حامل اور زندگی سے فراراختیار کرنے والے لوگ منشیات کے خوگر ہوجاتے ہیں اورمنشیات کے استعمال سے موت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بعض افراد تونشے کے اتنے عادی ہیں کہ اس کے بغیر سانس لینا بھی گوارانہیں کرتے۔دنیا کے ممالک کامجموعی جائزہ لینے سے یہ بات آئی ہے کہ اکثر واقعات میں کچھ نابالغ افراد سے لے کر بالغ افراد تک ‘ جن میں مرد اور عورت کوکوئی تخصیص نہیں‘ اپنی منشیات کی طلب پوری کرنے کیلئے ہرجائز وناجائز طریقے سے نشہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ ورلڈ سوشل سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کے بعض ممالک خوش قسمت ہیں کہ ان ممالک میں منشیات کا کاروبار اور اس کااستعمال کرنے والوں کیلئے سزا موت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے عوام اور نہ صرف ذہنی اورجسمانی صلاحیتیں بہت بلند ہیں بلکہ و ہ تعمیروترقی کے حوالے سے دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں سے بھی بہت آگے ہیں۔ منشیات کے پاک ممالک میں حفظان صحت کے اصولوں پرسختی سے عمل ہوتا ہے ۔جن پر حکومت کی طرف سے کڑی نظر رکھی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کی صحت کا معیار بہترہے،ان ممالکک کے برعکس پاکستان کے مختلف حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے زیادہ تر اعلیٰ افسران اور ان کے اہلکار چوری چھپے منشیات کی لعنت کو پھیلانے میں اہم کردار اداکررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ قانون کے محافظ محض کم تنخواہوں اوراپنے خاندان کو بنیادی سہولتیں نہ ملنے کے باعث نئی نسل کی رگوں میں نشہ آور چیزوں کی شکل میں‘ موت کا اندھیرا پھیلانے کاسبب بن رہے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق ‘ پاکستان سمیت دنیا کے چند دوسرے ممالک کی پولیس کے افسروں اور اہلکاروں میں ”اوپر کی آمدنی“ کے حصول کی دوڑ سے ان ممالک میں منشیات کا گراف اوپر اٹھ رہاہے۔
سماجی بہبود کے اداروں کے مطابق کسی معاشرے کے افراد کو منشیات کی لعنت سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت سب سے پہلے ان بعض وزیروں‘ سرکاری افسروںاور قانون کے محافظوں کامحاسبہ کرے تو اس سے ملک اور معاشرے میں دیدہ دلیری کے ساتھ منشیات کاکاروبار کرنے والوں کو بہت حد تک روکا جاسکتاہے۔ منشیات کے عادی افراد میں غریب متوسط اور امیر‘ تینوں طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں جن میں بعض کم سن بچے ‘ نوعمر لڑکیاںاور جوان عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں‘ ہمارے ملک اورمعاشرے میںمنشیات کے عادی افراد کو سر عام‘ فٹ پاتھوں‘چوراہوں‘ تفریحی پارکوں اورمختلف گنجان آباد شاہراہوں کے دونوں طرف بیٹھے دیکھاجاسکتاہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کوئی بھی نشہ آور شے انسان کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے جس کااثر متاثرہ فرد کے اہل خانہ کے علاوہ پورے معاشرے پرپڑتاہے۔ چنانچہ آج بعض اچھے اور شریف گھرانوں کی لڑکیاں محض اس لئے رشتوں سے محروم ہیں کہ ان کے بھائی‘ باپ یا قریبی رشتے دار نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک اورمعاشرے کی نسلوں میں منشیات کا سب سے کاری وار ‘ شیطان صفت سرکاری افراد اورکرپشن میں ڈوبے ہوئے ارباب بست وکشاد کی وجہ سے ہوتاہے اور دیکھاجائے تومنشیات کازہر‘معاشرے میں دہشت گردی‘ تخریب کاری ‘ خودکش بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم سے کم نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے محض طالبان کے خودکش حملوں کی صورت میں ہی موت بے گناہ شہریوںپرنازل نہیں ہورہی ہے بلکہ یہی وہ علاقے ہیں جن سے افیون اور پوست خفیہ طریقوںسے نہ صرف پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں پہنچ رہے ہیں۔ منشیات کاکاروبارکرنے والے ارب پتی بن چکے ہیں اور اپنی دولت کے باعث وہ قومی سیاست پر بھی بہت طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق معاشرے میں منشیات کی وبا کابڑا سبب ‘ ملکی اور غیر ملکی ایجنسیوں کے افرادبھی ہیں جو پاکستانی معاشرے کو ان سے فالج زدہ کرکے ہمارے ملک میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہیں۔ بعض ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہر جتن سے شراب کی تشہیر کی جاتی ہے جس سے کچے ذہن کے اکثر نوجوان مرد اور عورتیں شراب کے شغل کو زندگی کامعمول بنا لیتے ہیںاور اس شیطانی عمل کے اثرات سے وہ اپنی زندگیاںتباہ کرلیتے ہیں۔اسلام میں شراب کو حرام قرار دیاگیاہے۔یہاں تک کہ دین اسلام نے شراب پینے والوں کیلئے80کوڑے لگانے کی سزا رکھی ہوئی ہے۔ منشیات سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ ملک اورمعاشرے کو افیون‘ چرس‘ ہیروئن اورشراب کے سوداگروں سے بچایاجائے اور حکومت اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کے اسمگلروں اور بیوپاریوں کا قلع قمع کرنے میں کسی بھی رحمدلی سے کام نہ لیں۔ رگوں سے اندھیرا ‘تبھی دور ہوسکے گا جب انسان کی نسوں میںطاقتور اور صاف خون دوڑانے کااہتمام ہوتارہے گا اور یہ سب اسی صورت ممکن ہے کہ ملک میںبیروزگاری نہ ہو‘ ہر انسان کو ملاوٹ سے پاک کھانے پینے کی اشیاء حاصل ہو تا کہ معاشرے کے عوام‘ غم روزگار میںمبتلا ہو کر ان کااستعمال کرنے کی بری عادت میں نہ پڑیں اور نشے کی لت کو غم غلط کرنے کاذریعہ نہ بنائیں۔