گذشتہ دو تین روز سے حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی سنسنی خیز خبریں پورے ماحول پر چھائی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر دونوں طرف سے منتخب شدہ نمائندگان کی وفاداری اور صلاحیت پر بحث مباحثے ہورہے ہیں۔ ایک مخمصہ، ابہام اور سراب دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورتحال کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے ہمیں درج ذیل لطیفے اور مثال پر غور کرنا ہوگا۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی جو خصوصیات زبانِ زد خاص و عام ہیں ان میں سے ایک ’’ملا دو پیازہ‘‘ بھی ہے۔ ملا دو پیازہ دراصل اکبری دربار کا مسخرہ تھا۔ وہ پڑھا لکھا شخص تھا خصوصاً دینی علوم پر بھی اس کی دسترس تھی اس لئے قدیم روایت کیمطابق اسے ’’ملا‘‘ کہا جاتا تھا۔ اسی تناظر میں کئی مذہبی شخصیات کے ساتھ اسکی بات چیت کے واقعات معروف ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایران سے ایک شیعہ عالم دین ہندوستان آیا ان دنوں چونکہ اکبر نے دین اکبری کا اعلان بھی کردیا تھا۔ اسی پسِ منظر میں اکبر بادشاہ کے سامنے اس نے کچھ سوالات رکھے۔ شہنشاہ اکبر نے درباری علماء کی خدمات حاصل کیں تو فیصلہ ہوا کہ موصوف سے مناظرہ ہونا چاہئے اور مناظرے میں مغل سلطنت کی نمائندگی ملا دو پیازہ کرینگے۔ ملا دو پیازہ پختہ عالم نہیں تھا مگر شاہی مسخرہ ہونے کا اعزاز اس کے اعتماد کا بڑا سبب تھا اوپر سے وہ حاضر دماغ بھی تھا۔ چنانچہ اس نے مناظرے کا چیلنج قبول کرتے ہوئے حکومت کی سرپرستی میں ’’مذاکرات‘‘ کا آغاز کردیا۔ اس مناظرانہ بحث مباحثے کا پہلا رائونڈ باضابطہ علمی مسائل پر گفتگو کی بجائے اشاروں سے شروع ہوا۔ مہمان عالم نے ملا دو پیازے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکی طرف شہادت کی انگلی کا اشارہ کیا جواب میں ملا دو پیازے نے دو انگلیاں دکھادیں۔ اس نے تین انگلیاں اسکی طرف تان دیں تو دو پیازے نے چار انگلیوں کا اشارہ دیدیا۔ مہمان نے پوری پانچ انگلیاں لہرائیں تو ملا دو پیازے نے مکہ بناکر اس کا جواب دیا۔ مکے کے جواب میں مہمان سکالر تھوڑی دیر خاموش ہوگیا، اس خاموشی سے فائدہ اٹھاکر ملا دو پیازے نے اپنی جیت کا اعلان کردیا اور شاہی دربار میں اپنی علمیت اور ذہانت کا ایک اور ثبوت دیکر عنایات شاہی کا مستحق بن گیا۔ مناظرے میں موجود کسی شخص نے بعد میں فریقین سے پوچھا کہ ہمیں توان اشاروں سے کوئی بات سمجھ نہیں آئی لہذا ہمیں بھی ان ’’مذاکرات‘‘ کی حکمت سمجھائی جائے۔ اب جو صورتحال سامنے آئی وہ مناظرے اور اسکے نتیجے سے بھی دلچسپ تھی۔ مہمان سکالر چونکہ قدرے مطمئن تھا اسلئے اس سے دریافت کیا گیا کہ آپ اتنے دور دراز سے جس مقصد کیلئے آئے تھے کیا وہ پورا ہوگیا ہے؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ سائل نے پوچھا وہ مقصد کیا تھا اور آپ نے اکبری دربار میں کیا موقف رکھا تھا؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہوا تھا کہ اکبری عہد حکومت میں اسلامی اور ہندو عقائد گڈمڈ ہوگئے ہیں اس لئے میں اسکی وضاحت چاہ رہا تھا۔ میں نے جب میزبان مناظر کو ایک انگلی دکھائی تھی تو میرے ذہن میں اس کا مقصد یہ تھا کہ کیا تم لوگ ایک خدا کی توحید پر ایمان رکھتے ہو؟ میرے اس سوال کے جواب میں حکومتی نمائندے نے جب دو انگلیوں کا اشارہ کیا تو میں سمجھا کہ وہ نہ صرف توحید پر ایمان کا اقرارکررہا ہے بلکہ اسکے ساتھ عقیدہ رسالت کی اہمیت بھی بتارہا ہے۔ میں اس جواب پر مطمئن ہوگیا تو میں نے تین انگلیاں دکھائیں، اس سے میری مراد یہ تھی کہ ہم لوگ عقیدہ توحید و رسالت کی طرح سیدنا علیؓ کی امامت کے بھی قائل ہیں۔ لہذا اس سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے۔ چنانچہ حکومتی نمائندے نے میرے اس سوال پر عقیدہ اہلسنت کے مطابق خلافت راشدہ کے حق ہونے کا عندیہ دیا اور چاروں خلفاء کے ہم مرتبہ ہونے کا اشارہ کیا۔ بعد ازاں میں نے پانچ انگلیاں اس کے سامنے کیں تو میرا مقصد یہ تھا کہ ہمارے عقیدے میں ’’پنج تن پاک‘‘ کو بنیادی اہمیت ہے تو کیا تم بھی ان پر ایمان رکھتے ہو؟ میرے اس سوال کے جواب میں میزبان نے مکہ بناکر مجھے یہ جواب دیا کہ نہ صرف متفق ہیں بلکہ ہمارے نزدیک خلفائے راشدین اور پنج تن پاک عین یک دگر ہیں اور دونوں کی محبت کو یکجا کرکے اسلام کی مجموعی طاقت وجودمیں آتی ہے۔ مجھے چونکہ اسکے اس اصولی موقف پر کوئی اعتراض نہیں تھا اسلئے میں نے اپنی خاموشی سے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیا۔ اس شخص نے جب یہی بات ملا دو پیازہ سے پوچھی تو اس نے اپنے اشاروں کے پس پردہ رازوں سے یوں پردہ اٹھایا۔ اس نے بتایا جب مہمان مناظر نے مجھے ایک انگلی سے میری ایک آنکھ نکالنے کا عندیہ دیا تو جواب میں، میں نے دو انگلیاں دکھاکر اسے بتایا کہ میں تمہاری دونوں آنکھیں نکال سکتا ہوں۔ اس نے جب میرے اس جواب کے مقابلے میں تین انگلیوں سے مجھے ڈرانے کی کوشش کی تو میں نے چار انگلیوں سے اپنی طاقت کا جواب دیا۔ اس نے پانچ انگلیاں دکھاکر مری گردن دبوچنے کی دھمکی دی تو میں نے اسے مکہ دکھاکر جان سے مار دینے کا عزم ظاہر کردیا جس کے جواب میں اس نے مناظرہ ختم کرکے اپنی ہار مان لی۔
قارئین! آپ نے دیکھا دو طرف کے اشاروں میں بظاہر تو کچھ نہیں تھا مگر اشارہ کرنے والوں کے ذہنوں میں اس کی مختلف تعبیریں پہلے سے موجود تھیں اور ہر ایک اپنے طور پر اپنی تعبیر کو ہی حقیقت سمجھتا رہا۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال آج کل حکومت اور طالبان کے امن مذاکرات کے معاملے میں سامنے آرہی ہے۔ ایک غیر یقینی صورتحال ہے جو کسی سلیم الفطرت شخص کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ٹی ٹی پی اور حکومت دو ایسے فریق ہیں جن کی سرگرمیاں اپنی اپنی جگہ پر اپنے اپنے ارادوں کیمطابق عین درست ہوں گی اس لئے دونوں طرف سے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔
تحریک طالبان جب افغانستان میں شروع کی گئی تو میرے سمیت ہر شخص اسے افغانستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کیلئے تائید ایزدی سمجھ رہا تھا۔ ہمیں افغانستان میں ان کی قربانیاں اور عالمی استعمار کیخلاف جرات مندانہ استقامت پر آج بھی فخر ہے لیکن سرحد کے اس پار فاٹا اور وزیرستان میں اسی نام کے لوگوں نے جو سرگرمیاں جاری رکھیں اور جس طریقے سے انہوں نے بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جانیں لینے کا ایک طویل سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انکے جو مطالبات اور عزائم ہیں وہ بادی النظر ہیں تو ’’اسلامی شریعت‘‘ کی خوبصورت اصطلاح میں لپٹے ہوئے ہیں مگر ان کا ٹریک ریکارڈ اور ہونیوالے نقصانات کی نوعیت بتا رہی ہے کہ ان لوگوں کے ارادے ہرگز درست نہیں۔ اگر وہ اسلام اور شریعت محمدیؐ کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ شریعت عورتوں، بچوں اور معمولی نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو جینے کا حق دے رہی ہے؟ بچیوں کے سکول، تجارتی مراکز، سیکیورٹی ادارے اور ہزاروں ہنستے بستے گھروں کی بربادی پر ان کے پاس کیا شرعی دلیل ہے؟ اس کے جواب میں اگر یہ ڈرون حملوں کی مثالیں دیں تو یہ کون سا جواز ہے؟ ڈرون حملے تو امریکی فوج کی کاروائی ہے۔ اگر آپ کا مقابلہ امریکی استعمار سے ہے تو بتایا جائے ملک میں ہزاروں امریکی لوگ کھلے عام پھرتے ہیں۔ ان میں بلیک واٹرکے کارندوں سے لے کر عام سفارتکاربھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے ان کے منہ سے مکھی بھی اڑائی ہے؟ کیا جہاد صرف کلمہ گو مسلمانوں کو مارنے کا نام ہے؟ دونوں کے درمیان کن شرائط پر کیا مذاکرات ہوں گے؟ کیا حکومت طالبان کے مطالبات ماننے کی پوزیشن میں ہے؟ اور کیا طالبان حکومتی قوانین پر ہتھیار پھینک کر امن عمل کی تائید کریں گے؟ جو لوگ آج تک طالبان کی ظالمانہ کاروائیوں کو غلط قرار دیتے رہے ان میں سے اکثریت اب ان کی نمائندگی کرے گی۔ آئندہ چند دن خاصے اہم ہیں، اللہ کرے اس کاوش سے اچھے نتائج برآمد ہوں مگر حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ دیکھئے کیا گزرتی ہے قطرے کو گوہر ہونے تک۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024