کڑے امتحان کے بغیر اقوام کامیابی و کامرانی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتیں تاہم پاکستانی قوم کا کٹھن امتحان ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اس کی بڑی وجہ ’’قیامت کا‘‘ قحط الرجال اور عوام کی بدقسمتی کے ساتھ ساتھ معصومیت ہے!
واضح رہے کہ ‘ تحریک طالبان پاکستان بیت اللہ محسود کی قیادت میں دسمبر 2007 میں وجود میں آئی یہ دور پرویزی تھا اور لال مسجد کے سانحہ کے پانچ ماہ بعد کا واقعہ‘ 25 اگست 2008ء کو اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس وقت پاکستان میں کم و بیش 60 کالعدم تنظیمیں موجود ہیں۔ ان تنظیموں میں کچھ بالکل ہی نام نہاد ہیں‘ کچھ بڑی تنظیموں کی طفیلی ہیں اور کچھ آپس میں فکری ‘ تحریکی اور دوستانہ تعلق کی حامل ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ان کالعدم تنظیموں کا آئین میں کوئی مرتبہ اور مقام نہیں اور نہ آئین اور قانون ان تنظیموں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی اجازت دیتا ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا یا آئین کو نظر انداز کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے جب ان تنظیموں کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ تعلق بالعموم محض عوام سے اور بالخصوص سیاسی رہنمائوں‘ پارٹیوں اور منبر و محراب کے وارثین سے جا ملتا ہے۔
وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہئے
سچی بات یہ ہے کہ ‘ اس وقت خواص و عوام کے سامنے تین چیزیں ہیں -1 آئین اور قانون -2 قیام امن اور -3 قیادت کی دیدہ دلیری کا فقدان اور ان کے ہاں عاقبت نا اندیشی کی فراوانی۔ گویا ایسی صورتحال میں تمنائیں قیام امن کے لئے زیادہ ہیں ایک طبقہ حکمرانوں ، سیاستدانوں اور طالبان سے بیک وقت خوفزدہ ہے اور وہ فی الحال اسے کڑوی گولی کی طرح نگلنے کے درپے ہے وہ فکر رکھنے والے جو ہر حال میں آئین اور قانون کی پاسداری کے خواہاں ہیں وہ زیادہ تر خاموش اور پریشان ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت تک بچہ بھی ماں سے دودھ نہیں پاتا جب تک روئے نہ !!! ہاں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو طالبان کو حکمرانی کے طور پر آئیڈیلائز کرتا ہے۔
جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا فراز
سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
اب آئیں اس مذاکراتی کمیٹی کی طرف جس کے ارکان میں شامل طالبان کے محبوب جاں -1 تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ وہ عمران خان ہیں‘ جن کی پارٹی کی کے پی کے میں حکومت ہے‘ وہ کے پی کے جو طالبان کا بڑا اور مرکزی مورچہ ہے اور جہاں امن و امان کی خرابی بھی سب سے زیادہ ہے‘ اور شاید طالبان کو مزاحمت بہت کم! -2 کمیٹی کے ایک اہم رکن مولانا سمیع الحق ہیں‘ جن کا تعلق مکتبہ دیو بند کی ایک سیاسی و مذہبی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (س) سے ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ ہونے کے علاوہ دبنگ سیاستدان‘ سینیٹر جمہوریت پسند‘ ایک بڑے عالم دین کے صاحبزادے اور اکوڑہ خٹک کے بہت بڑے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ بھی ہیں‘ -3 جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم بھی طالبان کے لئے قابل اعتماد ٹھہرے ‘ پارلیمانی تجربہ رکھنے والے پروفیسر ابراہیم جہاں تنظیمی طور سے کے پی کے امیر ہیں وہاں آئینی طور پر سینٹری کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ -4 مولانا عبدالعزیز لال مسجد اسلام آباد کے چیف خطیب ہیں ان کا کہنا ہے کہ میں امن کے لئے حاضر ہوں بشرطیکہ حکومت سنجیدہ ہو اور ملک میں شریعت کا نظام لانے کی ابتداء اور بات کرے۔ -5 مفتی کفایت اللہ سابق ممبر صوبائی اسمبلی ہیں اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ان کا تعلق ہے۔ جہاں تک حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا تعلق ہے ان میں -1 مشیر وزیراعظم اور بنیادی طور پر ن لیگ کے ’’سپوکس مین کالم نگار‘‘ عرفان صدیقی -2 سابق چیف سیکرٹری رستم شاہ -3 سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی -4 سابق آفیسر انٹر سروسز انٹیلی جنس میجر (ر) محمد عامر شامل ہیں۔
کچھ لوگ اس بات پر بہت حیران ہوئے کہ‘ مولانا فضل الرحمن طالبان کی منتخب کردہ کمیٹی میں شامل نہیں اور یہ ان کی ’’سیاسی و دینی‘‘ شکست ہے تاہم راقم کا یہ خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن جان بوجھ کر دور رہے ہیں جو ان کا دانشمندانہ سیاسی فیصلہ ہے یہ نہیں کہ وہ عمران خان کی وجہ سے بیچ میں نہیں آئے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ ’’مقام اعراف‘‘ پر رہنا پسند کرتے ہیں وہ پورے سیاستدان ہیں لیفٹ بھی ان کا اور رائٹ بھی ان کا گویا۔ سیاست میں وہ دونوں بازوئوں کے قائل نکلے۔ عمران خان کی طرح یہ نہیں کیا کہ لیفٹ کا ہو کر رائٹ کا استعمال کرتے سیاسی طور پر عمران خان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کبھی جنرل (ر) حمید گل اور عرفان صدیقی جیسے لوگ عوامی اور سیاسی سطح پر ان کے طرف دار نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف عرفان صدیقی میاں نوازشریف کے گیت گانے کے علاوہ جانتے ہی کیا ہیں‘ یہ عمران خان کے گیت نہ سیکھیں گے نہ گائیں گے۔ عمران خان کو اب جماعت اسلامی کے 50 فیصد لوگ پسند کر سکتے ہیں مگر پی پی پی کے کچھ لوگ جو پی پی پی سے مایوس ہو کر ان کی طرف آئے تھے، وہ گئے۔ کچھ این جی اوز جو عمران خان کے لئے لڑ مر رہی تھیں‘ وہ بھی پریشان ہوں گی۔ خالص سیاسی فائدہ صرف اور صرف ن لیگ کو ہو گا۔
پی پی پی مخالف لوگ اور این جی اوز کا رخ بھی میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کی طرف ہو گا اگر مثبت نتائج نہ نکلے اور عمران خان نے مذاکرات میں کوئی گڑ بڑ کی ‘ یا گڑ بڑ اس پر پڑ گئی تو کے پی کے کی حکومت سے بھی ہاتھ دھوئے جا سکتے ہیں۔عمران خان گو مذاکراتی ٹیم سے الگ ہوگئے ہیں لیکن ان پر طالبان کا نمائندہ ہونے کا ٹھپہ تو لگ چکا ہے۔ پروفیسر ابراہیم ممکن ہے مثبت ثابت ہوں لیکن جماعت اسلامی کو اس کا رتی بھر سیاسی فائدہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں جماعت کے سر کوئی کامیابی آئے گی نہ ناکامی۔ بیان داغنے کے لئے آج کل صرف بلاول بھٹو زرداری سرگرم عمل ہیں اسفند یار ولی اور آصف زرداری تیل اور تیل کی دھار دیکھنے میں مصروف ہیں بولیںگے ضرور مگر کچھ دیر کے بعد۔ ایم کیو ایم والے حیران ہیں اور پریشان بھی ہیں لیکن انہیں بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
بہرحال ہم تو عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ طالبان کے نئے قومی دھارے میں شامل ہونے کا بہترین موقع ہے آرام سے شامل ہو جائیں‘ موقع نہ گنوائیں یقین کریں فوج عوامی ہے اور اگر فوج واقعی فوج بن گئی تو سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ یاد رکھئے قانون اور آئین کو پس پشت ڈال کر یہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ آئین میںگنجائش نہیں‘ حسب عادت نکالی جا رہی ہے لیکن ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ گنجائش بنائو کے لئے نکالی جا رہی ہے لہذا درست مانتے ہیں لیکن بنائونہ ہوا تو ظاہر ہے پھر بگاڑ ہو گا۔ بگاڑ کو کچھ بنائو میں بدلنے کے لئے پھر عدالتی اور عوامی سطح پر ’’نظریہ ضرورت‘‘ ہی بچتا ہے۔ یا پھر فوج !!! اس لئے سب سوچ سمجھ لیں… سوچ سمجھ!!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024