حکومت نے شاید طالبان کیخلاف اپریشن کا فیصلہ کر لیا تھا جیسا کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ خان نے کہا تھا جس کا میاں نواز شریف نے برا منایا اور ایکشن لینے کا بھی عندیہ دیا۔ اس سے قبل پرویز خٹک کو تیلی پہلوان کہنے کا بھی میاں صاحب نے نوٹس لینے کا کہا تھا لیکن نہ اُس وقت کوئی ایکشن ہوا نہ اب ہوا ہے بلکہ رانا صاحب مونچھوں کو ذرا زیادہ تیل لگاکر شہباز شریف کے گرد دھمال ڈالتے نظر آتے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات مرکز کا معاملہ ہے‘ رانا ثناءاللہ کو اندر کی بات کا علم تھا تو بیان داغنے کی ضرورت نہیں تھی۔
جنر ل راحیل کی طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر طالبان مذاکرات کی پیشکش دہرا رہے تھے۔ انکی آواز میں آواز ان کے حامیوں نے حسبِ سابق ملائی ۔ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اکثریت نے اپریشن کے حق میں رائے دی لیکن میاں صاحب نے اس رائے پر تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے قائدین کے مشورے کو فوقیت دیتے ہوئے امن کو ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا ۔ یہ سب شاید اتمامِ حجت کیلئے ہے لیکن لگتا ہے کہ طالبان مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں۔ حکومت طالبان مذاکرات نیا تجربہ نہیں ہے۔ پہلے بھی کئی بار کامیاب مذاکرات ہو چکے ہیں۔ ہر بار طالبان سے ہاتھ ہو گیا۔ جنرل اسلم بیگ کے بقو ل ” 2004ءمیں جب کہ امن معاہدہ طے پا چکا تھا تو دوسرے ہی دن مولوی نیک محمد کو ڈرون حملے میں مار دیا گیا۔۔۔فوجی قیدیوں کے تبادلے اور معاوضے کی ادائیگی کا بھی ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں300 فوجی قیدی تو رہا کرا لئے گئے لیکن معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔اس کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختون خواہ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل اورکزئی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔تین اور مواقع پر قیدیوں کے تبادلوں کے معاہدے طے پائے جن کے تحت طالبان نے ہمارے قیدیوں کو رہا کردیا تھا لیکن بدلے میں طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا۔“ طالبان اسی لئے حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اب وہ مذاکرات کی میز پر آ رہے ہیں تو پکی ضمانتیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ طالبان قیدیوں کے تبادلے میں انکے بیٹے کا نام بھی شامل کیا جائے۔ خدا دشمن کو بھی اولاد کے گُم اور اغواءہونے کاغَم نہ دکھائے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گیلانی صاحب نے فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کی تعیناتی کیلئے 25 کروڑ روپے وصول کئے۔ راجہ پرویز کے وزیراعظم بننے پر تعیناتی نہ ہو سکی تو 25 کروڑ دینے والوں نے ایک ارب روپے مانگے‘نہ ملنے پر موسیٰ کو اغواءکرلیا اور مطالبہ شاید دو ارب تک پہنچ گیا ہے۔مذاکرات کے انعقاد کا امکان روشن نہیں تو معدوم بھی نہیں ہے تاہم ان کے کامیاب ہونے کی ایک موہوم سی امید ہی ہے۔ حکومتی ٹیم عرفان صدیقی، رستم خان مہمند، رحیم اللہ یوسف زئی اور میجر عامر پر مشتمل ہے۔ انکی اور طالبان کی سوچ میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔گویا یہ بھی خود کُش جیکٹوں کے بغیرپُر امن طالبان ہی ہیں۔ طالبان کمیٹی پر کمیٹی بنا رہے ہیں۔ کل انہوں نے جس کمیٹی کا اعلان کیا اس میں عمران خان، مفتی کفایت، پروفیسر ابراہیم، مولانا عبدالعزیزاور مولانا سمیع الحق کے نام دئیے گئے۔ آج ایک اور کمیٹی کا اعلان کر دیا گیا جس کا سربراہ قاری شکیل کو بنایا گیا ہے ۔ مذاکرات تو وہی کمیٹی کریگی جس میں عمران خان شامل تھے جو اس کمیٹی میں شمولیت سے کھسک گئے ہیں۔ سمیع الحق، عمران خان کو اِن رکھنا چاہتے ہیں مولانا فضل الرحمن سرے سے اس کمیٹی کی تشکیل کا برا منا گئے ۔ ان سے حکومت مشورہ کر رہی ہے نہ طالبان لفٹ کرا رہے ہیں بہرحال ان کو یہ جتانے کا حق ہے کہ ” میں بھی ہوں“۔ انہوں نے کمیٹی سے مولانا کفایت کو واپس بلالیا ہے۔
طالبان کا مطالبہ تھا کہ حکومت بااختیار اور مخلص ہو تو مذاکرات کریں گے۔ طالبان جس حکومت کے بااختیار ہونے پر شک کا اظہار کر رہی اس حکومت نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو تمام اختیارات سے لیس کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ طالبان گزشتہ ادھورے معاہدوں کی تکمیل کامطالبہ تو کریں گے جن میں تبادلے میں طالبان قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔ جس سے کمیٹی کے لوگ ا صولی طور پر اتفاق کریں گے اور اختیارات کا خمار بھی ہے ۔ ان قیدیوں کی رہائی قیدی وزارت داخلہ کے بس کی بات ہوتی تو وہ رہا ہو چکے ہوتے۔ یہ جہاں ہیں وہاں سے لاپتہ افراد بھی سپریم کورٹ کے حکم اور ہدایت پر پیش نہیں ہوتے۔ طالبان قیدی کیسے رہا ہوں گے جو فوج اور حساس تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں اور رہا ہو کر انہوں نے وہی کچھ کرنا ہے جس کی پاداش میں پکڑے گئے ،شاید کئی کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہو۔ مذاکرات کی کامیابی کا ایک خمیازہ سوات میں بھی بھگتا گیا۔ نفاذِ شریعت پر طرفین کے دستخط ہو چکے تھے لیکن معاہدے کو عملی شکل نہ دی جا سکی۔ اسکے بعد تباہ کن اپریشن ہوا جس کے اثرات کسی نہ صورت آج بھی نظر آتے ہیں۔ ملا فضل اللہ کی آگ بگولہ شدت پسندی نے اسی اپریشن سے جنم لیا۔
ایک طرف فریقین کے دستے گھات لگائے بیٹھے ہیں دوسری طرف مذاکرات کا عمل شروع ہوا چاہتا ہے ۔ مذاکرات میں کامیابی کا یقین تو نہیں محض ایک ہلکی سی امید ہی ہے۔ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو گھات لگائے دستے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے۔ طالبان ملک کو بارود کا ڈھیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اس لئے کوشش اور خواہش یہی ہونی چاہئے کہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024