کرپشن ،بددیانتی اور اقربا پروری نے ملک کو کنگال کیا اور بہت سے ادارے ڈبو دئےے۔ ریلوے ، پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے ادارے کبھی منافع بخش تھے جو دیوالیہ کی حد تک پہنچ گئے۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان اداروں کی بحالی کی کوشش کرتے ہوئے ان کواہل لوگوں کے حوالے کیا۔اس دوران آئی ایم ایف نے مزید قرض کیلئے حکومت کوخسارے میں جانیوالے اداروں کی نجکاری کرنے یا ان کو منافع بخش بنانے پر زور دیا ۔ آئی ایم ایف کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ رکھنے والی حکومت نے نجکاری کے آسان نسخے پر عمل پیرا ہونے میں عافیت جانی۔
ریلوے کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی۔ سیاسی بھرتیوں، سفارش اور کرپشن نے ریلوے کو بربادی کی اتھاہ گہرائی میں پھینک دیا تھا ۔ بلور صاحب اسکی اصلاح کیا کرتے انہوں نے اس کو قابل اصلاح بھی نہیں چھوڑا تھا۔نوا ز لیگ حکومت نے اصلاح کیلئے پی آئی اے کے بعد ریلوے کو ترجیح دی ۔پی آئی اے کی بحالی تو اس کی یونین نے ناکام بنا دی اور نجکاری کی راہ میں بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ پی آئی اے کا اللہ ہی حافظ، سٹیل مل کے خسارے سے نکلنے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔البتہ ریلوے صحیح اور محفوظ ہاتھوں میں آگیا ہے۔میاں نواز شریف نے ریلوے کی بحالی کیلئے خواجہ سعد رفیق پر اعتماد کیا جس پر وہ توقعات سے کہیں بڑھ کر پورا اترے۔گزشتہ روز رﺅوف طاہر نے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی طرف سے صحافیوں کو ریلوے ہیڈ کواٹرلاہور میں مدعو کیا تھا۔جس میں وفاقی وزیر کا ریلوے کو پٹری پر چڑھانے کا عزم اور اقدامات دیکھ کر اقبال کا شعر بے ساختہ زبان پر آگیا ....
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
کچھ تفصیل انہوں نے بتائی اورکچھ ریلوے کی بدلی بدلی سی حالت دیکھ کر بھی اندازہ ہوتا تھا کی یہ پٹری پر بڑی تیزی سے چڑھ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کرپٹ مافیا کو کیفرکردار تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائیگی۔ نیب میں ریلوے سے متعلق معاملات کی سرگرم پیروی کا اہتمام کیا گیا ہے ان میں بزنس ٹرین اور ایک نجی کلب کے معاملات بھی شامل ہیں۔ ریلویز کی موجودہ انتظامیہ کی موجودگی میں اب بالائی سطح پر کرپشن کا کوئی امکان نہیں۔ ریلوے کے سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور کے ٹرانسپورٹ کے بزنس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن میرے خیال میں انکا اصل مسئلہ سیاسی مفادات تھے۔ ہمارے اکثر وزراءکو سیاسی کارکنوں اور اپنے لوگوں کو نوازنے کی بیماری ہوتی ہے۔ یہی مسئلہ بلور صاحب کا بھی تھا۔ ہم نے ریلوے سے سیاسی مداخلت ختم کردی ۔ مسلم لیگ ن کو ریلوے سے باہر چھوڑ آیا ہوں۔ اول و آخر اب میرٹ کی کارفرمائی ہے ۔ریلوے نے پچھلے سال کے مقابلے میں 2 ارب 43 کروڑ زیادہ منافع کمایا ہے۔ ریلوے کی زمینوں پر با اثر افراد اور لینڈ مافیا نے سالہاسال سے قبضہ کیا ہوا ہے جسے واگزار کرانے کیلئے حکومت نے اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ ریلوے کے کرائے غیر حقیقت پسندانہ تھے جن کی بناءپر مسافروں کی تعداد 25فی رہ گئی تھی۔ پابندی وقت کا تناسب دس فی صد ہو گیا تھا۔ ہم نے کرایوں میں کمی کی جس سے مسافروں کی تعداددوگنا سے زائد ہو گئی ہے اور پابندی اوقات میں بھی بہتری آ گئی ہے۔ جس سے ریلوے کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔
سعد رفیق نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ریلوے کی نجکاری ہوئی تو وہ استعفیٰ دیدیں گے ۔ اس سے انکے ریلوے کو ایک بار پھر منافع بخش ادارہ بنانے کا عزم ظاہر ہوتا ہے ۔حکومت کو بھی ان کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے اس لئے ریلوے کی نجکاری کا فیصلہ اگر کیا گیا تھا تو وہ واپس لے لیا ہے۔
اس موقع پر جنرل منیجر ریلویز انجم پرویز نے ریلوے کی سات ماہ کی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں پر بریفنگ بھی دی۔انہوں نے ابتدائی 200 دنوں کی کوششوں اور کامیابیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا؛ابتدائی دو سو دنوں میں پچھلے مالی سال کے اسی دورانیئے کی نسبت تین ارب 43کروڑ 49 لاکھ روپے اور نئے مالی سال کے ہدف سے 98 کروڑ 42لاکھ روپے زیادہ کمائے گئے ۔گڈز ٹرینوں کیلئے مختص لوکو موٹیوز کی تعداد آٹھ سے بڑھ کر 25 تک پہنچ گئی ہے۔کراچی بندر گاہ سے اوسطاً ایک ٹرین چلا کرتی تھی اب یہ تعداد تین سے پانچ ہوگئی ہے۔ تیل کے ذخائر جو دو دنوں تک محدود ہوگئے تھے ان کو بڑھا کر 12 دنوں تک لایا گیا ہے ۔رواں سال جون تک آن لائن ٹکٹنگ کا نظام متعارف کر ادیا جائیگا۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے شبانہ روز کی محنت سے ریلوے کا قبلہ درست کر دیا ہے۔یہ قوم کی خوش قسمتی ہے کہ میاں نواز شریف نے ریلوے کا سسٹم درست کرنے کیلئے سعد رفیق پر اعتماد کیا اور وہ اس پر پورا اترے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024