طالبان سے مذاکرات کا ڈول تو ڈالا جا چکا مگر اس ڈول سے دودھ کی جگہ پانی ہی نکلے گا، وہ بھی کھارا اور مٹیلا پانی۔ وجہ تو صرف نیتوں کا فتور ہے۔ اگر مقصد دکھانا کچھ اور کرنا کچھ ہو تو ظاہر ہے کہ نتیجہ کیا ن کلے گا۔ اب بھی قوم کو دکھانا کچھ ہے اور امریکہ کے لئے کرنا کچھ ہے۔ آخر میں یہی ہو گا کہ امریکہ خوش اور طالبان ناخوش!! جبکہ عوام کے نصیبوں میں وہی خودکش حملے اور ڈرون حملے۔ اقتدار کی رسیاں مضبوط اور عوام الناس کی زندگی کی رسیاں کمزور اور کمزور پڑ جائیں گی۔ اس وقت پاکستان بے حسی، بے ضمیری میں جکڑا ہوا ہے۔ ہر فرد اس خون پسینہ سے حاصل کئے ہوئے ملک کو ترنوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے کے در پے ہے۔ پاکستان نے کرپشن میں جو ریکارڈ قائم کئے ہیں اس نے آج ہمیں اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ ہر وقت ہم سوالی بنے رہتے ہیں۔ ہر وقت فقیروں کی طرح مانگتے رہتے ہیں۔ صدر ممنون حسین بولے بھی تو کیا بولے کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے میں سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک مدد کریں۔ اسحاق ڈار امریکہ، انگلینڈ اور یورپ سے امداد کے خواستگار رہتے ہیں۔ وزرا بھی حسب توفیق باہر جا کر کچھ نہ کچھ طلب کر آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے پہلے چائنہ کا دامن تھاما مگر چائنہ نے تو خود سارے پاکستان کو ”میڈ ان چائنہ“ بنا کر چائنہ کو مضبوط سے مضبطو تر بنا دیا کیونکہ سوئی سے لے کر جوتی اور جوتی سے لے کر موبائل، کمپیوٹر، ایل سی ڈی، چنگ چی، گاڑی، جہاز سمیت ہر چیز بنا کر پاکستان کی ہر صنعت پر راج کرنے لگے۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب ترکی کے ساتھ امید سے ہیں۔ دیکھئے یہ دوطرفہ تعلقات کیا رنگ لاتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ کوئی ترکی حور بیاہ لائیں اور سب منہ دیکھتے رہ جائیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کب اپنے پیروں پر کھڑا ہو گا، کم کما¶ پوت بنے گا، کب خود پر انحصار کرنا شروع کرے گا۔ آخر کب تک بھیک مانگنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پاکستان میں جو فیکٹریاں، کارخانے، صنعتیں تھیں اب تو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے وہاں بھی تالے پڑے ہیں۔ حالات اتنے ہولناک ہیں کہ دل لرز جاتا ہے۔ پاکستان میں ”تعلیم تعلیم“ کا شور ہے۔ سرکاری درسگاہوں کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر بھی پلے گروپ سے لے کر پی ایچ ڈی تک دس لاکھ تک میں تعلیم دے رہے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم نہیں، تعلیم کے حصول کے لئے فیسیں بڑھی ہیں۔ والدین اچھے مستقبل کی امید میں اپنے دن رات ایک کر کے، اپنی تمام جمع پونجی لگا دیتے ہیں لیکن جب طالب علم لاکھوں کی تعلیم کے بعد اپنی امیدوں، خوابوں اور خواہشوں کو لے کر میدان عمل میں نکلتے ہیں تو ہر جگہ سفارش، رشوت، اقرباپروری، جعلسازی منہ چڑاتی ہے۔ نوکری کے بدلے دھکے ملتے ہیں۔ آخرکار ذہین اور قابل لوگ عاجز آ کر پاکستان چھوڑ جاتے ہیں۔ آج دیار غیر میں پاکستان کے لائق، قابل اور اعلیٰ اذہان جی جان سے کام کر کے اس ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہیں ایسا ہی کرنا چاہئے جب اپنے ملک میں علم اور ٹیلنٹ کی قدر نہ ہو، اس کا مول نہ لگے تو بے چارہ آدمی کیا کرے.... یہ بات تو حکمرانوں کو سوچنی چاہئے۔ ایک بار ذوالفقار کھوسہ کو ایک علمی، ادبی تقریب میں کہا گیا کہ ایک چینل علمی، ادبی بھی ہونا چاہئے۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ حکومت میں ہیں اور بااثر شخصیت ہیں۔ اگر آپ ادیبوں، شاعروں، دانشوروں کے لئے ایک ”ادبی چینل“ کھول دیں تو ادیب برادری آپ کی ادب پروری کی داد دے گی لیکن ذوالفقار کھوسہ نے ہنس کر کہا کہ ”بھئی! ادبی چینل کو جانے دیں، اتنے سارے مزے مزے کے چینل انجوائے کریں“۔ ہم سب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہمیں تو مولانا فضل الرحمن کی طرف سے بھی یہی ڈر رہتا ہے کہ اگر حکومت نے انہیں من مانی کرنے کے لئے کوئی عہدہ، کوئی حصہ، وزارت نہ دی تو وہ بھی نکاح ثانی نہ کر بیٹھیں۔ شکر ہے ہر حکومت انہیں راضی رکھتی ہے ورنہ ناراضی میں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ طالبان سے قربت کے بہت دعوے کرتے ہیں لیکن طالبان کو راہ راست پر لانے کے لئے آج تک اپنی ایک شرط بلکہ ایک درخواست بھی نہیں منوا سکے ہیں۔ ان کے جثہ پر نہیں جانا چاہئے، ہمیں ان کی سیاسی کارکردگی مدنظر رکھنی چاہئے۔ منچلے کہتے ہیں کہ ان کی سیاسی کارکردگی ہے کہاں؟ سیاسی کارکردگی میں تو عمران خان نے بھی کوئی سکور کر کے نہیں دکھایا۔ حال ہی میں ”عزیزی“ نے ان کا ایک انٹرویو کیا جس میں عمران خان نے کئی جھوٹ بالکل سچ کی طرح بولے۔ کہنے لگے کہ کالج دور میں شرمیلا تھا، گرلز کالج کے سامنے سے گزرتے ہوئے بھی شرماتا تھا۔ عمران خان کے جتنے سکینڈلز منظر عام پر آئے ہیں، اتنے کسی اور سیاستدان کے سکینڈلز سامنے نہیں آئے۔ اگر شرمیلے پن میں یہ ریکارڈ قائم کیا ہے تو بغیر شرمائے کیا ریکارڈ ہو گا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ مہنگے لباس اور گاڑیوں کا بھی شوق نہیں۔ عمران خان ایک لحاظ سے ٹھیک ہی کہتے ہیں، اب وہ گاڑیوں پر کہاں سفر کرتے ہیں۔ زیادہ تر اپنے ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے ہیں۔ ہر پروگرام، جلسہ، انٹرویو میں ایک سے بڑھ کر ایک زبردست لباس زیب تن کیا ہوتا ہے۔ سو کنال کا ایک گھر اسلام آباد میں، ایک فلیٹ لندن میں، کئی گھر لاہور میں اور نجانے کہاں کہاں مسکن ہیں۔ عمران خان تن تنہا سو کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ ویسے تو شنید ہے کہ کبھی کبھی جمائما بھی آ جاتی ہے۔ غالباً وہ بھی یہاں ٹھہرتی ہے۔ اللہ جانتا ہے یا عمران خان.... البتہ عمران خان شاید یہ نہیں جانتے کہ اسی ملک میں ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو زیادہ تر تین مرلہ اور ڈھائی مرلہ گھروں میں رہتی ہے۔ جہاں تک گاڑی کا معاملہ ہے تو عمران خان نے ہر قسم کی اعلیٰ اور بیش قیمت گاڑی استعمال کی ہے اور جوانی بھرپور طریقے سے گزاری ہے بلکہ اب اپنا بڑھاپا بھی انجوائے کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جب وہ لندن جاتے ہیں تو پھر جینز میں ہوتے ہیں یا تھری پیس سوٹ پہن لیتے ہیں۔ خدا ان کی دولت میں اضافہ کرے اور انہیں اس عمر میں بھی جوان رکھے جبکہ اس عمر میں پاکستانی دادا، نانا بن کر مصلا سنبھال لیتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت تو تیس سال کی عمر میں بوڑھی اور مردہ دل ہو جاتی ہے کیونکہ بل اور بےروزگاری ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ عمران خان کا دل تو ایک 25 سال کے نوجوان کی طرح دھڑکتا ہے اور ”وزیراعظم عمران خان“ کے نعرہ پر چہرہ گلنار ہو جاتا ہے۔ وہ اس طرح شرماتے ہیں جیسے کوئی نوجوان رشتہ طے ہونے پر شرماتا ہے یا دلہن گھونگھٹ اٹھانے پر شرماتی ہے۔ لیکن لیڈر ہونے کے ناطے جھوٹ تو نہ بولیں اور یہ بھی تو سوچیں کہ اس ملک کے کروڑوں نوجوان اپنی آرزو¶ں کا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں کیونکہ اس ملک میں وہ تمام سہولتیں میسر نہیں جو آپ کو ہیں۔ کیا آپ کبھی ان کی جگہ چار دن جی کر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ جینا کیا جینا ہوتا ہے....
دیا ہے درد بھی اس نے تو لا دوا مجھ کو
دیا ہے زخم جو اُس نے مجھے کمال دیا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024