لانگ مارچ اور دھرنا پسندیدہ سیاسی حربہ
سید شعیب الدین احمد
دھرنا سیاست دنیا کیلئے نئی نہیں۔ اپنے مطالبات منوانے کیلئے دھرنے دینا معمول کی بات ہے۔ سیاسی جماعتیں اسی ہتھیار کو حکومتوں کو کمزور کرنے کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی اسی ہتھیار کو کئی مواقع پر استعمال کیا گیا ہے مگر پاکستان میں لانگ مارچ دھرنے سے زیادہ پسندیدہ سیاسی حربہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کیلئے کامیاب لانگ مارچ کیا گیا تھا جو لاہور سے روانہ ہو کر گوجرانوالہ پہنچا تھا کہ جج بحال کردئیے گئے تھے۔ اکیسویں صدی میں دھرنا سیاست کا کامیاب استعمال تیونس، مصر اور دیگر عرب ممالک میں ہوا جہاں عوام نے برسوں سے حکمران آمروں سے نجات پانے کیلئے دھرنے دئیے مگر دھرنوں کی اس سیاست کا فائدہ حکمرانوں کی تبدیلی کی صورت میں تو ضرور نکلا مگر مصر میں صدر حسنی مبارک کے بعد جمہوری طریقے سے صدر بننے والے محمد مرسی نے اپنی ذات کو تمام اختیارات کا مرکز بنا ڈالا جس کے بعد اب انکے خلاف بھی احتجاج، دھرنے جاری ہیں۔
پاکستان میں دھرنے کا نیا ”ٹرینڈ“ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دیا ہے۔ انہوں نے کینیڈا سے پاکستان آنے اور اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ ایک ”کامیاب“ شو ہوگا مگر لاہور سے چل کر اسلام آباد پہنچنے والے طاہر القادری نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے بالمقابل ڈیرے ڈال کر حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ ان سے انکے ”ٹرالر“ میں آکر مذاکرات کرے۔ سخت سردی میں ہونیوالے اس دھرنے نے پاکستان میں ”کامیاب“ دھرنے کی نئی تاریخ رقم کی۔ اسی دھرنے کے وقت کوئٹہ میں ہزارہ برادری نے دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک ہونیوالے اپنے درجنوں پیاروں کی میتوں کے ساتھ دھرنا دیا اور حکومت ک مجبور کردیا کہ وہ انکے پاس جاکر انکی بات سنے۔ ان کامیاب دھرنوں کے بعد اب کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنا جاری ہے۔ یہ دھرنا کراچی میں نئی حلقہ بندیوں اور گھر گھر جاکر ووٹر لسٹوں کی تصدیق فوج کی نگرانی میں کرانے کیلئے دیا جا رہا ہے۔ کراچی کے بعد اب مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ دھرنا آج ہوگا۔ دھرنے میں جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علماءاسلام، سنی تحریک، فنکشنل لیگ، سندھ ترقی پسند پارٹی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، این پی پی سمیت دیگر جماعتیں بھی شریک ہوں گی جبکہ جماعت اسلامی نے بھی دھرنے میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان میں دھرنوں کا مقصد احتجاج، اپنی آواز، سوچ، رائے یا مخصوص مطالبے کو بالادست قوتوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ دھرنے عموماً علامتی ہوتے ہیں اور صبح سے شام تک جاری رہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اس دھرنے کا مقصد جو بھی ہو، مسلم لیگ (ن) اور تمام سیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اب انتخابات سر پر آچکے ہیں۔ دھرنوں کی سیاست کو ”منفی سیاست“ کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اور مارشل لاءکا کھیل گزشتہ 55 برس سے جاری ہے۔ 2008ءمیں جمہوریت کی بحالی ہوئی مگر اس کیلئے جن افراد نے اپنی جانوں کی قربانی دی اور خون بہایا۔ آج انکا نام تک لوگوں کو یاد نہیں ہے مگر جمہوریت کیلئے اپنا خون دینے والے ان افراد کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان ووٹ کے ذریعے بنا، قائداعظمؒ نے علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کو جمہوری جدوجہد کے ذریعے عملی جامہ پہنایا۔ قائداعظمؒ کے اسی پاکستان میں جو جمہوری طریقے سے بنا اسے جمہوریت کے راستے پر ہی چلنا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے جمہوریت ابتدا میں ہی ڈی ریل ہوگئی۔ پٹڑی سے ایسی اتری کے بار بار پٹڑی پر چڑھایا جاتا ہے مگر جمہوریت دشمن قوتیں اسے پھر ڈی ریل کردیتی ہیں۔ جمہوریت میں عوام ہی کسی حکومت یا سیاسی جماعت کے حق میں یا خلاف فیصلے دیتے ہیں اور یہ فیصلے انتخابات میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کرکے دئیے جاتے ہیں۔ عوام کے اس ووٹ کے استعمال وقت آرہا ہے۔ موجودہ اسمبلی کی رخصتی میں اب صرف اتنے دن رہ گئے ہیں کہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے پاس جانے کی تیاری کریں۔ حکومت نے عوام کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا؟ اسکا جواب اسے اب دینا ہے۔ اپوزیشن نے عوام کی اسمبلیوں میں نمائندگی کا کتنا حق ادا کیا، اسکا جواب اس کو دینا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے اپنی کامیابیوں کا ایک چارٹ بناکر سامنے لائیں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ حکومتیں انہیں کیا کیا ”دینے“ کی دعویدار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اب اپنے اپنے منشور سامنے لانا ہیں۔ عوام کو بتانا اہے کہ وہ اقتدار میں آئے تو کیا کرینگے تاکہ اقتدار سے رخصت ہوں تو بتا سکیں کہ یہ کچھ نہیں کرسکے تو اسکی وجہ کیا تھی؟ عوام چاہتے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ انہیں بجلی کیسے ملے گی، لوڈشیڈنگ کیسے ختم ہوگی، پانی کی کمی کا مسئلہ کیسے دور ہوگا، تیل اور گیس کی مہنگائی جو مجموعی طور پر تمام تر مہنگائی کی ذمہ دار ہے، کیسے کنٹرول ہوگی۔ ملک میں معاشی بحران کا خاتمہ کب ہوگا، صنعتوں کا پہیہ کب چلے گا، بیروزگاروں کو نوکریاں کیسے ملیں گی، گھروں ٹھنڈے چولہے کیسے جلیں گے؟
سیاسی جماعتوں کو اپنی توجہ اب اس طرف دینا ہوگی۔ دھرنا یقیناً ہونا چاہئے کہ اگر اسکے ذریعے کسی اصلاح کا پہلو نکلتا ہو۔ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں اب بیحد ضروری ہیں کیونکہ جنرل پرویز مشرف پر یہ الزام ہے کہ اس نے ایک مخصوص جماعت کیلئے کراچی میں موجودہ حلقہ بندیاں کی تھیں۔ اگر ایک ایک گھر میں درجنوں یا سینکڑوں ووٹوں کا اندراج ہے تو ووٹوں کی چیکنگ بھی ہونی چاہئے۔ کراچی پاکستانی کی معیشت کا پہیہ چلاتا ہے۔ کراچی میں بہنے والے خون نے اس پہیے کو جام کردیا ہے۔ کراچی میں امن کیلئے ضروری ہے کہ وہاں فیئر اینڈ فری الیکشن ہوں۔ اگر آج کے دھرنے کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی اور یہ دھرنا اس لئے بھی کامیاب کہلائیگا کہ اسکے ذریعے پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔