دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک بھارت کا اصل چہرہ آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ جھوٹ پر سے پرچہ ہٹ رہا ہے۔ سچائی ہے کہ اب کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی برسوں سے پروان چڑھنے والی امن کی آشا خطرے میں ہے۔ کھیل بند‘ موسیقی بند‘ تجارت بند اور اب پاکستانی سفارت کاروں کو بھی تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جب پاکستان کے دو سفارت کاروں نے جے پور کے ادبی میلوں میں جانے کی اجازت مانگی تو حکام بالا کی جانب سے انہیں ادبی فیسٹیول میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔ یہ ہے سیکولر اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت کا تعصب بھرا چہرہ۔ اس پر سونے پر سہاگہ کے مصداق پاک بھارت سرحدوں پر پھیلی کشیدگی کے تناظر میں پچھلے دنوں بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہوئے یہ بیان داغ دیا کہ بھارت پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے مگر اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یہ تو وہی مثل ہو گئی کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اس تمام صورتحال دیکھتے ہوئے اب اس بات کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کا ہندوستان میں رہنا کتنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے کھلاڑی‘ سیاستدان‘ سفارت کار اور اب پاکستانیوں کے اپنے ہی ملک کے مسلمانوں پر بھارت نے زندگی تنگ کرنا شروع کر دی ہے۔ اس بات کی سچائی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ بالی ووڈ کے کنگ خان نے نیو یارک ٹائمز کے تعاون سے چھپنے والے اپنے ایک آرٹیکل میں بالآخر اپنے دل کا سارا غبار نکال دیا۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ معیشت میں ترقی کا دعویٰ کرنے والا بھارت بذات خود جرائم اور لاقانونیت کی دنیا کا کامیاب کھلاڑی بنتا جا رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں مجرمانہ مداخلت اس کا پرانا شیوہ رہا ہے لیکن اپنے ہی ملک میں بھی بھارتی حکومت انسانیت‘ مذہب اور اقلیتوں کے لئے بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ گذشتہ سال اکانومسٹ ٹائمز نے بھارت کو غیر محفوظ ملک قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ بھارت میں حقوق کے لئے آواز اٹھانا جان گنوانے کے مترادف ہے۔ حالیہ بھارتی وزیر داخلہ سیشل شندے دہشت گردی کے بیان اور 16 دسمبر کی شام کو بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک نوجوان طالبہ کو 6 افراد نے اجتماعی طور پر بے حرمتی اور تشدد کا نشانہ بنانے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اس طالبہ کی المناک موت نے بھارت کی جمہوریت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ عالمی طاقتیں بھارت کی غیر انسانی حرکات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ بھارت کی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تحقیق کے مطابق پچھلی پانچ دہائیوں میں خواتین سے زیادتی کے واقعات میں 873 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2011ءمیں امریکہ کی ایک تنظیم ”انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن ویمن“ کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ہر چار بھارتی مردوں میں سے ایک کبھی نہ کبھی جنسی تشدد میں ملوث ہوتا ہے۔ گذشتہ 40 برسوں کے دوران بھارت میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں 900 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2011ءمیں 24206 بھارتی خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور ان واقعات کے حوالے سے دیکھا جائے تو گذشتہ 40 برس کے دوران بھارت کے قتل کے واقعات میں 250 فیصد اضافہ ہوا ہے مگر بھارت کو اپنے پڑوسی ملکوں کے گریبانوں میں جھانکنے سے فرصت ملے تو وہ اپنے گریبان میں بھی منہ ڈال کر دیکھ سکے کہ آج وہ خود کہاں کھڑا ہے۔ 2012ءمیں بھی بھارت‘ خواتین کے لئے خطرناک ملک ثابت ہوا ہے۔ جبکہ حالیہ سالوں میں نئی دہلی کو جنسی زیادتی کے دارالحکومت کا نام دیا گیا۔ اس لئے یہاں یہ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت‘ بھونچال کی زد میں ہے۔ ترقی کرتی معیشت کی آج ایک اور پہچان سامنے آرہی ہے کہ یہاں بنت حوا غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک نے بھارت کے سیکولر ہونے کے دعوے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024