پاکستان میں تدریسِ زبان اور ذریعۂ تعلیم کا مسئلہ (1)
پاکستان میں کتنی زبانیں ہیں؟ اس کا جواب دینا آسان نہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی دفتری زبان آج بھی بہت حد تک انگریزی ہے۔ حالانکہ ان دنوں مختلف دفتروں میں کلرک جس قسم کی انگریزی لکھتے ہیں اس پر یہ مصرع پوری طرح صادق آتا ہے کہ ’خود غلط، املا غلط، انشاء غلط‘۔ اب تو آپ کو خاصی تعداد میں ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جن کے پاس ایم اے انگریزی کی ڈگریاں ہیں مگر چند جملے بھی صحیح نہیں لکھ سکتے۔ ویسے تو اب اردو کے سند یافتہ لوگ بھی ان سے کم نہیں رہے لیکن فی الحال معیار کا مسئلہ التوار میں رکھیے۔ انگریزی کے بعد اہمیت کے اعتبار سے اردو کا نمبر آتا ہے۔ ہمارے ہاں روز مرہ گفتگو میں تقریباً دس فی صد اردو بولنے والے ہیں مگر ثانوی زبان کی حیثیت سے اردو جاننے والے تمام دوسری زبانوں پر فائق ہیں۔ پھر پشتو، سندھی، سرائیکی، بلوچی، ہندکو اور براہوی وغیرہ ہیں۔ براہوی بولنے والے محض ایک فی صدی ہیں، بعض علاقائی زبانیں یا لہجے تعداد میں ستر یا اسّی بتائے جاتے ہیں۔ عموماً یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا کہ زبان کسے کہا جائے اور بولی یا لہجہ کسے قرار دیا جائے؟ ایک مقبولِ عام اصطلاح ہے جسے انگریزی میں Mother Tongue کہا جاتا ہے، اردو والے مادری زبان کہتے ہیں اور پنجاب کے بعض ماہرینِ لسانیات نے اس کے لیے ’ماں بولی‘ کی اصطلاح رائج کی ہے۔ اب لسانیات کے عالموں نے اسے Mother Tongue کی بجائے Native Tongue کہنا شروع کر دیا ہے۔ ہم اس کا ترجمہ کرنا چاہیں تو اسے علاقائی یا مقامی زبان کہہ سکتے ہیں۔
پاکستان کے مشکل مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ تعلیمی اداروں میں ذریعۂ اظہار کا ہے۔ کافی غور و خوض کے بغیر یہ کہہ دینا کہ تعلیمی اداروں میں ذریعۂ تعلیم پہلی جماعت سے انگریزی کو بنا دیا جائے ہرگز مناسب نہیں کیونکہ عوام کی بہت بڑی اکثریت انگریزی سے بالکل بے بہرہ ہے۔ کبھی محدود پیمانے پر اور کبھی وسیع پیمانے پر پہلی جماعت سے انگریزی کی ترویج کی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں مگر ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ مثلاً دانش سکولوں کا تجربہ دیکھ لیجیے۔ اس کو محدود پیمانے پر کیا گیا مگر ابتدائی دو تین جماعتوں ہی میں سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد خوف ناک حد تک بڑھ گئی۔ پھر فیصلہ کیا گیا کہ انگریزی تیسری جماعت سے شروع کی جائے۔ اب بھی دانش سکولز موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا اور کم از کم اخبارات پر تو مکمل سناٹا چھایا ہوا ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے یکساں تعلیمی نصاب کا تجربہ تقریباً دو سال پہلے شروع کیا تھا لیکن آثار اچھے نہیں ہیں۔
ہمارے ہر دور کے حکمران برسرِ اقتدار آتے ہی اپنی کرسیاں بچانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ وہ نہ تو کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی انھیں کام کرنے دیا جاتا ہے۔ وہ جب آتے ہیں تو ’اصلی تے وڈے‘ حکمرانوں کے ساتھ ایک صفحے پر ہوتے ہیں مگر جلد ہی یہ صفحہ دو تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی بنیادی طاقت اس کی معیشت ہوتی ہے جو اس کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر کوئی حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ ہم متوازن بجٹ ہی نہیں بنا سکتے۔ قرضوں پر مکمل انحصار اور گردشی قرضوں کی ادائیگی ہی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ قرضے اور سود کی شرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔ قرض لے کر قرضوں کی بالاقساط ادائیگی ہی اتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ کسی منصوبے کو احسن طریقے سے چلانا ممکن نہیں۔ ہمارے سیاست دان اور وردی یا بغیر وری والے اربابِ اختیار اپنے اپنے مفادات کی سوچوں سے ہٹ کر کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں۔ معیاری تعلیم جس کے بغیر کوئی ملک ترقی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، اس کے لیے ہم بجٹ میں دو فیصد رقم مختص کرکے سمجھتے ہیں کہ ’اسی سے ہوگا فروغِ قومی، اسی سے چمکیں گے باپ دادے۔‘ اس دو فیصد رقم میں بھی زیادہ توجہ بنیاد کو مضبوط بنانے کی بجائے ہائر ایجوکیشن پر ضائع کی جا رہی ہے۔
ہمارے تعلیمی پالیسی بنانے والوں کو سب سے پہلے پرائمری تعلیم کے فروغ کو اپنا مشن بنانا چاہیے ورنہ کچھ نہیں ہوگا۔ شہروں ہی میں نہیں، قصبات اور دیہات میں بھی اچھے سکول بنانے ہوں گے۔ چند کمرے، سستے ڈیسک، دھوپ اور سردی سے بچوں کو بچانے کے لیے مناسب عمارتیں، کھیل کے میدان جن میں فٹ بال اور والی بال جیسے کم خرچ کھیل کھیلے جائیں۔ تربیت یافتہ استاد ہوں جنھیں مناسب تنخواہیں دی جائیں۔ نصابی کتابیں علاقائی ضرورتوں کے مطابق ہوں۔ سکولوں کی انتظامی اور درسی ضروریات کا خیال لوکل باڈیز کے اراکین رکھیں۔ تب کہیں جا کر بیس پچیس برسوں میں ایسی قوم متشکل ہوگی جس کا دنیا میں اعتبار اور وقار ہوگا۔
ہاں! میں نے کالم کا آغاز پاکستانی زبانوں سے کیا تھا۔ ہمیں بہت جلد اور مستقل طور پر طے کرنا ہوگا کہ ہمارے سکولوں میں کون سی زبان یا زبانیں ذریعۂ تعلیم بنیں؟ مگر تمہید طولانی ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ مختلف زبانیں بولنے والے علاقوں میں ذریعۂ تعلیم کس زبان یا کن زبانوں کو بنایا جائے؟ یہ تنہا پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ جن ممالک میں زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں یہ مسئلہ لازماً موجود ہوتا ہے جیسا کہ بھارت میں ہے جہاں جنوب میں ہندی سمجھی اور بولی نہیں جاتی۔ بھارت میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سہ لسانی پالیسی بنائی گئی جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ وہاں بھی اس سلسلے میں اختلافات موجود ہیں مگر بڑی اکثریت نے اسے قبول کر لیا ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ اتنا شدید تو نہیں ہونا چاہیے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی ایک علاقے پر زبردستی کوئی دوسری زبان مسلط کر دیں۔ ہر صوبے میں صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں وسیع مشاورت کرنی چاہیے اور اس کے بعد متفقہ طور پر ممکن نہ ہو تو اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی صوبے یا علاقے میں وہاں کے صاحب الرائے اور تعلیم یافتہ لوگوں سے بحث مباحثوں کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔
یہ بھی فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ ہمیں انگریزی کی کتنی اور کہاں کہاں ضرورت ہے؟ کیا پرائمری میں سرے سے انگریزی نہیں ہونی چاہیے اور اس کی ضرورت اگر ہے تو کس لیے ہے اور کس حد تک ہے؟ منزل تک پہنچنے کے لیے مناسب راستے کا تعین کیا جاتا ہے، یہ نہیں کہ جدھر منہ اٹھے ادھر نکل جاؤ اور کہیں بیچ میں جا کر اندازہ ہی نہ ہو کہ منزل کدھر ہے؟ آئندہ قسط میں یہ بتاؤں گا کہ پاکستان میں تدریسِ زبان اور ذریعۂ تعلیم کے لیے مناسب طریقِ کار کیا ہونا چاہیے۔ (جاری)