معاشی استحکام کے لیے اشرافیہ کی مراعات کم کی جائیں
پاکستان کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ سیاسی جماعتوں نے آپس میں ایک رسہ کشی شروع کی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی و سماجی عدم استحکام بھی پیدا ہوا ہے۔ اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو عوامی و ملکی مفادات پر یوں ترجیح دی جارہی ہے کہ کوئی بھی دوسرے کی بات سننے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صورتحال افسوس ناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی۔ معاشی بحران سے نکلنے کی سبیل اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب تمام سیاسی قیادت اسے ملک کا سنگین ترین اور حساس ترین مسئلہ سمجھ کر سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ طے کر لے کہ کچھ عرصے کے لیے اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اپنی تمام توانائیاں صرف اور صرف ملکی مفادات کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ یوں ایک طرف سیاسی قیادت اپنی توانائیاں ملکی مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کر پائے اور دوسری جانب عوام کو یہ پیغام ملے گا کہ کچھ عرصے کے لیے ہی سہی انھوں نے کسی سیاسی جماعت کے حمایتی اور ہمدرد بن کر نہیں بلکہ صرف پاکستانی بن کر سوچنا اور کام کرنا ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور دو ہفتے کے اندر ایک دوست ملک سے تین ارب ڈالر مل جائیں گے جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کی حالت بہتر ہو جائے گی لیکن کیا ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہم نے دوسروں کے ہاتھوں کی طرف ہی دیکھتے رہنا ہے اور کچھ بھی نہیں کرنا؟ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جس برتاؤ پر اسحاق ڈار شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں اس کا گلہ کیسے کیا جائے جب ملک کے اندر اشرافیہ کو مراعات و سہولیات کے نام پر کھربوں روپے دے کر ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی؟ ایک نجی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالر والی قسط نہ ملی تو پھر اس کا متبادل منصوبہ کر رکھا ہے۔ اب تک کوئی ایسی ادائیگی نہیں ہے جو وقت پر نہ ہوئی ہو۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے اور اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان نے ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈز مقررہ تاریخ سے تین روز پہلے ہی ادا کر دیے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین موجودہ حکمران اتحاد سے کئی باتوں پر اختلاف رکھنے کے باوجود اسحاق ڈار کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف نہیں جارہا۔ سندھ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک میں افراتفری کے عالم میں میں کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دوں گا۔ معاشی صورتحال کے باعث عوام کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ شوکت ترین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے پٹرول کی قیمت کم نہیں کی جس کی وجہ سے اربوں روپے کا ٹیکا عوام کو لگایا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو روس سے دوبارہ بات کرنا ہوگی تاکہ سستا تیل مل سکے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اس بات کی وضاحت کرچکا ہے کہ امریکا نے روس کے تیل برآمد کرنے کے لیے پابندیاں نہیں لگائیں۔ روس سے تیل کی خریداری پر بات کرنے کے لیے وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کی سربراہی میں پاکستانی وفد روسی دارالحکومت ماسکو کا دورہ بھی کرچکا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس سلسلے میں عملی طور پر پیش رفت کب تک ہوتی ہے۔
معاشی استحکام کے حوالے سے سعودی عرب سے پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت پر سعودی فنڈ برائے ترقی (ایس ایف ڈی) نے سعودی عرب کے فراہم کردہ تین ارب ڈالر کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی ہے۔ یہ رقم سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپازٹ میں پڑی ہے اور پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا حصہ ہے۔ اس رقم کی واپسی 5 دسمبر کو ہونا تھی تاہم ایس ایف ڈی کے اعلان کے بعد اب یہ رقم مزید ایک برس تک پاکستان کے پاس رہے گی۔ ڈپازٹ کی مدت میں یہ توسیع مملکت سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعاون کا تسلسل ہے کیونکہ اس ڈپازٹ کا مقصد بینک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانا اور کووڈ 19 کی عالمی وبا کے اقتصادی اثرات کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کو مدد دینا ہے۔ واضح رہے کہ یہ رقم سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو نومبر 2021ء میں دی گئی تھی۔
دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں کا پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مثبت اقدام کرنا ان کے پاکستان پر اعتماد کی دلیل ہے لیکن ہمارے مقتدر حلقوں کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ آخر کب تک ہم دوسروں کی مدد کی بیساکھیاں لے کر معیشت کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات دیتا ہے۔ کیا ہم کسی بھی طرح یہ مراعات کم کر کے ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر نہیں ڈال سکتے؟ کیا ہماری اشرافیہ اتنی طاقتور ہے کہ ملک کو اس کے مفادات پر قربان کیا جارہا ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں ہے؟ پون صدی سے معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوام سے قربانیاں لی جارہی ہیں، ایک بار اشرافیہ سے بھی قربانی لے کر دیکھ لیا جائے کہ حالات میں کتنی بہتری آتی ہے!