اتوار،9 جمادی الاوّل 1444،4 دسمبر2022ء

امریکی سائفر بھجوانے والے ڈاکٹر اسد مجید سیکرٹری خارجہ تعینات
جس تنازع نے پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کیا‘ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دراڑ آئی‘ اس کے اہم کرداروں میں ہمارے یہ سیکرٹری اسد مجید بھی شامل ہیں مگر یہ کیا‘ اسی سائفر جسکی وجہ سے پی ٹی آئی نے حکومت کو گرانے کی بے مثال سازشی مہم چلائی اور کروڑوں پاکستانیوں کو اپنا ہم خیال بنایا‘ یوں ’’گلی گلی‘ نگر نگر سازشی سائفر‘‘ کا ایسا سماں باندھا کہ 1977ء کے بعد ایک بار پھر امریکہ عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنا۔ اس وقت یہی اسد مجید امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے اور انہی کا نام سائفر پہنچانے کے حوالے سے سامنے آیا۔ اب انہیں سیکرٹری خارجہ بنایاگیا ہے۔ خدا جانے یہ تنزلی ہے یا ترقی۔ موصوف اس وقت بلجیم میں پاکستانی سفیر ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ سیاسی ٹرین میں بیٹھ کر کراچی سے پشاور تک ہلا گلہ کرنا اور چیز ہے بیورو کریسی کے جہاز میں سفر کرنا اورچیز ہے۔ دیکھ لیں پی ٹی آئی کی حکومت قصہ پارینہ بن چکی۔ مگر اسد مجید ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کے سوئمنگ پول میں تیراکی کرتے ہوئے
’’اِدھرڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘‘
کا روایتی کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ لوگ نکالے نہیں جاتے‘ ان کے صرف تبادلے ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کا کیا‘ وہ ’’یک بینی و دو گوش‘‘ جب چاہے نکالے جاتے ہیں۔ کبھی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کبھی زور آوروں کی وجہ سے اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کی ہیراپھیری کی بدولت۔ کاش ہمارے سیاستدان اپنی حیثیت پہچان لیں۔ حد سے باہر نہ نکلیں‘ نہ کسی کو اس میں داخل ہونے دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ ورنہ وہی ہوگا جو اب تک ہوتا ہے۔ جس کام پر ایک قابل گردن زدنی ٹھہرے‘ دوسرا اسی کام پر ترقی کا حقدار قرار پائے گا ۔
٭٭……٭٭
رمیز راجہ پنڈی کی مردہ پچ اور ایشیا کپ میں بھارت کے نہ آنے پر برہم
اس میں قصور بھی خود راجہ جی کا ہے۔ کسی نے ان کے کان میں یہ سحر پھونکا ہے کہ وہ ہی ’’امرت دھارا‘‘ ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ کی ہر بیماری کا علاج ان کی ذات میں ہی پوشیدہ ہے۔ اب ان کا یہ کہنا کہ پنڈی کی مردہ بے جان پچ بنانے میں ان کا یعنی پی سی بی کا کوئی ہاتھ نہیں‘ نانی کے خصم کرکے چھوڑنے سے زیادہ بری بات ہے۔ راولپنڈی کی یہ مردہ پچ کیا شیخ رشید نے بنائی ہے جنہیں مردہ پچوں پر کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔ ویسے بھی پنڈی کچھ بھی ہو‘ اس کا کریڈٹ شیخ رشید اپنے سر لیتے ہیں۔ امید ہے شیخ جی پنڈی میچ سے بہت لطف اندوز ہونگے۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ گیٹ نمبر 4 سے سٹیڈیم میں میچ دیکھنے داخل ہوں۔ دوسری طرف رمیز راجہ اس بات پر بھی سیخ پا ہیں کہ بھارت کی کوشش ہے وہ پاکستان میں منعقد ہونے والے ایشیا کپ کرکٹ مقابلوں میں حصہ نہ لے۔ بھارت نے کہا ہے کہ یہ مقابلے کسی نیوٹرل مقام پر کروائے جائیں تب وہ اس میں شریک ہوگا۔ اول تو بھارت کی یہ بے تکی بات ہی قابل غور نہیں ۔ وہ کون ہوتا ہے عالمی کرکٹ کونسل کو تڑی لگانے والا۔ پاکستان میں ایشیا کپ کے مقابلوں کے انعقاد کا فیصلہ عالمی کرکٹ تنظیم نے کیا۔ دنیا کی کسی کرکٹ ٹیم کو اس پر اعتراض نہیں بس اکیلے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ دنیا دیکھ لے پاکستان ایک پرامن ملک ہے جہاں عالمی کھیلوں کے مقابلے منعقد ہو رہے ہیں۔ رمیز راجہ نے درست کہا ہے کہ پھر پاکستان بھی کسی اور جگہ ہونے والے اس کرکٹ ایونٹ میں شرکت نہیں کرے گا۔ یہ ہوتا ہے بروقت اور مناسب جواب۔ جب دنیا بھر کی عالمی ٹیمیں پاکستان آکر کھیل رہی ہیں تو بھارت کوکیوں موت پڑ رہی ہے۔
٭٭……٭٭
ملکہ شب سال میں ایک بار کھلنے والا عجیب و غریب پھول
ظالموں نے کیا چن کر اس پھول کا نام رکھا ہے۔ یہ نام سن کر تو دل عشاق پہ پھولوں سے پیار کرنے والوں پر قیامت گزرتی ہے۔ ساحر لدھیانوی نے شاید پھول کی مختصر زندگی کیلئے ہی کہا تھا:
میں تجھے پھول کہوں یہ مجھے منظور نہیں
پھول تو سانس کی گرمی بھی نہیں سہہ سکتا
ایسا ہی ایک رات کا مہمان یہ پھول جو برازیل‘ وسطی امریکہ اور میکسیکو میں پایا جاتا ہے‘ کوئن آف نائٹ یعنی ملکہ شب کہلاتا ہے۔ سال میں ایک مرتبہ یہ پھول کھلتا ہے۔ وہ بھی صرف رات کو یہ دیکھنے میں نہایت خوبصورت ہوتا ہے۔ جبھی تو اس کی آمد کی شب ہزاروں لوگ اسے دیکھنے امڈ آتے ہیں۔ افسوس ہمارے قدیم وجدید شعراء کو اسکے بارے میں زیادہ خبر نہیں ورنہ سہرے کے پھولوں سے لیکر مزاروں اور محبوب کے زلفوں میں سجے پھول سے لیکر عاشقوں کے ہاتھ میں تھامے پھولوں تک پر ہزارہا اشعار کہنے والے اس پر بھی خامہ سرائی کرتے اور بقول فیض:
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
کی طرح نجانے کتنے اشعار اس ملکہ شب کی طرف منسوب کرکے اسے بھی شب مہتاب کی طرح لازوال بنا دیتے۔ ہمارے ہاں بھی رات کی رانی کی مہک خوشبو پر بہت لکھا جا چکا‘ کہتے ہیں مہندی اور اس رات کی رانی کی مہک سانپ تک کو مست و بے خود بنا دیتی ہے۔ اس طرح نیم کی بہن دریک کے بھی جب پھول کھلتے ہیں تو اردگرد کی ساری فضا معطر ہو جاتی ہے۔ یہ بھی رات کو عاشقوں کے دلوں پر شب تنہائی میں قیامت مچا دیتی ہے۔ رہ گئی موتیے کی خوشبو تو اس سے ہر پھولوں کا عاشق اور شیدائی واقف ہے۔ جبھی تو محبوب کے بالوں‘ کانوں ‘ ہاتھوں میں موتیے کے پھول کبھی گجرے بن کر کبھی کجرے بن کر مہک رہے ہوتے ہیں۔ اب اس ’’شب ملکہ‘‘ کی کم وقتی زندگی کا دکھ بھی ہماری شاعری میں نیا غضب اٹھائے گا جو پہلے ہی:
میں نے پوچھا زندگی کیا ہے
ہنس دیئے پھول رو پڑی شبنم
جیسے مختصر اور فانی لمحات کے دکھ سے بھری پڑی ہے۔
٭٭……٭٭
اداروں کے خلاف پہلے تھے نہ آئندہ کسی مہم کا حصہ بنیں گے: مسرت جمشید چیمہ
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نکلا
مسرت جمشید چیمہ نے جس سرعت کے ساتھ اپنا بیان بدلا ہے‘ اتنی تیزی سے تو موسم بھی رنگ نہیں بدلتا۔ اب وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر بڑے کمانڈو بنے پھرتے ہیں‘ اپنی خیر منائیں۔ کل کلاں کوکہیں وہ یہ شکوہ کرتے ہوئے نظر نہ آئیں کہ پارٹی نے ہماری خبر تک نہیں لی‘ ہم پارٹی لائن پر اپنے قائد کے حکم پر چل رہے تھے۔ اب کوئی ہمیں پوچھتا تک نہیں۔ اس لئے اب انہیں ازخود اپنی قلم کی زبانوں کو لگام دینا ہوگا۔ منہ کھولتے ہوئے کچھ بے ڈھنگا بولتے ہوئے سوچنا ہوگا کہ بعد میں کوئی انہیں پوچھنے تک نہیں آئے گا۔ اب وہ دور گیا جب خالو خلیل غلیل ہاتھ میں لئے فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ مسرت چیمہ نے چند روز قبل ایک خاص کرارا قسم کا بیان دیا جو انکے سیاسی وزن سے زیادہ تھا۔ اس پر فوری طورپر پنجاب کے وزیراعلیٰ کا بیان عالی شان سامنے آیا کہ حد ادب! خاموش رہیں۔ پنجاب حکومت اپنے قومی اداروں کیخلاف بیان بازی نہیں کرتی۔ بس وزیراعلیٰ کے ایک بیان نے سارا منظرنامہ تبدیل کر دیا اور گزشتہ روز ہی وزیراعلیٰ کی ترجمان نے اپنا لہجہ اور بیان بدل دیا۔
یکدم اداروں کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ نہ ہم پہلے ان کے خلاف تھے نہ آئندہ کسی مہم کا حصہ بنیں گے۔ اسے ہی غالباً رجعت قہقہری کہتے ہیں۔ پنجاب میں اس پر ’’ماڑی سی تے لڑی کیوں سی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔