بات تو سچ ہے مگر
آنے والے ہفتوں میں کیا ہونے جا رہا ہے اس پر تجزیہ پیش کرنے سے پہلے ہم موجودہ حالات میں کیا کچھ ہوا ہے، ہو رہا ہے۔ اس پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے تمام اراکین پر بیرون ممالک سرکاری و نجی دوروں پر اگلے تین ماہ کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کور کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے اس ضمن میں جہاں تک پارٹی کے اندرونی معاملات ہیں اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آغاز کرتے ہیں علیم خان کے وزارت سے مستعفی ہونے پر… شروع سے پارٹی کے اقتدار میں آنے تک علیم خان نے بے حد قربانیاں دیں۔ بڑے بڑے جلسوں کے مالی انتظامات میں دل کھول کر چندہ دیا۔ انہیں عمران خان کی اے ٹی ایم بھی کہا جاتا تھا۔ مگر سچائی یہی ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ مناسب نہ تھا۔ انہیں گرفتار کر کے جیل میں بھی ڈالا گیا اور وہ بھی ایسے کیس میں جو کمزور تھا۔ کچھ بھی کہیں ان کا پارٹی میں ایک اہم مقام اور مضبوط دھڑا ہے۔ گورنر پنجاب محمد سرور بڑی متحرک شخصیت ہیں وہ مرکز میں رہ کر اہل وطن کی خدمت کے کئی منصوبے لے کر یہاں آئے تھے مگر انہیںبھی سائیڈ لائن میں رکھا گیا اب برطانیہ میں جا کر وہ پھٹ پڑے ہیں۔ میجر طاہر صادق اور امین اسلم کا ضلع اٹک کی سیاست میں کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ مگر میجر طاہر صادق دو سیٹیں جیتنے کے باوجود کھڈے لائن اور ملک امین اسلم طاقت میں، ریاض فتیانہ منجھے سیاستدان مگر زرتاج گل اور امین اسلم کے ہاتھوں خوار… آخر میں سب سے اہم شخصیت جہانگیر ترین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے سب ہی آگاہ ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ ان کا اگر فعال کردار اور سیاسی عمل دخل نہ ہوتا تو اول پی ٹی آئی میں اتنے لوگ ہی شامل نہ ہوتے اور دوم یہ پارٹی کبھی بھی اقتدار میں نہیں آ سکتی تھی۔ عمران خان کے گرد ایسے ٹٹ پونجیئے اکٹھے ہو گئے کہ ان کی وجہ سے عمران خان غلطیوں پر غلطیاں کرتے گئے اور نتیجہ یوٹرن، غلط پالیسیاں اور بیڈ گورننس ہے۔ مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں اور عام آدمی بھی جھولی اٹھا کر حکومت کو بددعائیں دے رہا ہے۔ پچھلے دنوں پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں بہت سے قوانین منظور کروائے گئے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ جو صفحہ پھٹ گیا ہے وہ دوبارہ جڑ گیا ہے۔مگر قطعاً ایسا نہیں ہے۔ کچھ قوانین کو منظور کروانا غالباً بہت ضروری تھا کہ کہ جس کے لیے یہ اہتمام کیا گیا تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے نئی قسط دینے سے پہلے انتہائی کڑی شرائط رکھی ہیں اگر اس پر عمل درآمد ہو تو ایک ضمنی بجٹ لانا پڑے گا۔ اول یہ بجٹ اس بار قومی اسمبلی سے بھی شاید منظور نہ ہو اگر فرض کریں منظور ہو بھی جائے تو سینٹ میں ناکام ہو جائے گا۔ اگر اس بار اسے منظور کرانے کی خاطر حکومت نے دوبارہ جوائنٹ سیشن بلانا چاہا تو اس بل کو وہاں سے کون منظور کروائے گا؟ فرض کریںکہ کسی غیبی مدد کے تحت ایسا بھی ہو جاتا ہے تو مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس کا سامنا حکومت کیسے کرے گی؟ اب آتے ہیں اپوزیشن کی طرف! اول تو ان کا ہر بات پر متفق ہونا تقریباً نا ممکن ہے فرض کریں وہ وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک لا کر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو آئی ایم ایف اور مہنگائی کا تو بہرحال انہیں بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو تقریباً 3 سال میں مقبولیت کھو چکی، مگر آنے والی حکومت انتخابات سے محض ایک سال قبل ہی ان پاپولر ہو جائے گی ۔ چنانچہ وہ یہ آپشن استعمال نہیں کریں گے۔ اب آتے ہیں ان کے لانگ مارچ اور استعفوں کی طرف پیپلز پارٹی لانگ مارچ اور استعفوں کا حصہ بالکل نہیں بنے گی۔ مولانا فضل الرحمن اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو پی ڈی ایم ٹوٹ جائے گی۔ اس کے بعد ہر پارٹی نے وہ کرنا ہے جو اس کی مرضی ہو گی یا جو ’’کہا‘‘ جائے گا۔ آنے والے چند دنوں میں پارلیمنٹ کی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے۔ پچھلی دفعہ وزیراعظم تشریف نہیں لائے تھے اس بار شنید ہے کوئی ’’اور‘‘ نہیں آئیں گے ایسے حالات میں آپ بخوبی سمجھ جائیں کے کیا ہو گا!
ایسے حالات میں اگر وزیراعظم وزراء کے باہر جانے پر پابندی بھی لگا دیں یا کور کمیٹی کا اجلاس بھی بلا لیں تو ان ’’سقراطوں‘‘ نے کیا کر لینا ہے۔ ایک الیکشن کمیشن کو فنڈز کی دھمکی دیتا ہے تو دوسرا سرے سے انکار کر دیتا ہے یہ بھان متی کا کنبہ ہے جس میں اگر سارے ’’ حواری‘‘ مل بھی جائیں تو کیا ہو جائے گا۔ اب آتے ہیں اس طوفان کی طرف جو وڈیوز کی وجہ سے پھیلا ہوا ہے۔ اس میں سب سے اہم وڈیو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہے۔ عموماً گمان یہ کیا جاتا ہے کہ ایسی وڈیوز کسی ادارے کے پاس موجود ہیں مگر قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ عرض کرتا چلوں کہ ایک اور بھی بڑی سرکاری ایجنسی ہے جو یہ کام کرتی ہے۔ اگر مریم نواز کی پریس کانفرنس کو غور سے سنیں تو معلوم چلتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کسی نہ کسی طریقہ سے ایک ہی پیج پر ہیں اور ان کا نشانہ ’’ایک‘‘ ہی ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے باخبر ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ ڈی چوک اسلام آباد میں ایک بم پڑا ہوا ہے جو لوگ عمران خان کو قریب سے جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ نواز شریف بنیں گے اور نہ ہی آصف علی زرداری، وہ بقلم خود اس بم کو لات ماریں گے۔ فرض کریں کہ ٹی ٹونٹی میچ میں صورتِ حال ایسی بن گئی کہ بم کو لات نہ مار سکے۔ تو پھر بم کو کوئی اور لات مارے گا۔ مگر ایک بات تہہ ہے کہ ’’بم ضرور پھٹے گا‘‘۔ دعا یہ ہے کہ اللہ کریم وہ کریں کے جس سے ہماری قوم اور ملک کے لیے بہتری ہو مگر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ بم ضرور پھٹے گا۔