پاکستان کی معیشت اور سٹاک مارکیٹ کی بدحالیڈالر کی

بلند پرواز نے گزشتہ روز پاکستان کی سٹاک مارکیٹ کا بھٹہ بٹھا دیا جبکہ تاریخ کا چوتھا بڑا مندا سرمایہ کاروں کے تین کھرب 32 ، ارب روپے نگل گیا ، اسی طرح سود کی شرح میں نمایاں اضافے کے خدشات سے پاکستان کی سٹاک ایکسچینج جمعرات کے روز کریش کی صورتِ حال سے دوچار ہوئی۔ مہنگائی اور تجارتی خسارہ بڑھنے سے خوفزدہ ہو کر سرمایہ کاروں نے دھڑا دھڑ حصص فروخت کئے جس سے کاروبار کے ابتداء ہی سے مارکیٹ بدترین مندے کی لپیٹ میں آ گئی اور انڈیکس کی 45 ہزار اور چوالیس ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حدیں گر گئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ماہ نومبر میں افراطِ زر کی شرح گیارہ عشاریہ پانچ فیصد تک پہنچنے کے باعث بنکوں کی جانب سے سٹیٹ بنک کو تین ، چھ اور بارہ ماہ کے ٹریژری بلوں کی نیلامی میں گیارہ عشاریہ اکیاون فیصد تک کی بلند شرح کی پیش کشوں نے سٹاک مارکیٹ کو کاروبار کے آغاز ہی میں کریش کی صورت حال سے دوچار کیا۔ سرمایہ کاروں کو اس امر کا خدشہ لاحق ہو چکا ہے کہ -14 دسمبر کی نئی مانیٹری پالیسی میں سود کی شرح پچاس ،100 کے بجائے 150 حیصص پوائنٹس بڑھ جائے گی۔
اس حوالے سے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری گیس بحران ، صنعتی شعبے میں بے چینی اور یورپ میں کرونا وائرس کی نازل ہونے والی نئی قسم اومیکرون کی وجہ سے غیر ملکیوں کی جانب سے سرمائے کے انخلاء اور مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے منافع کے حصول پر دبائو بڑھنے اور اس کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے باعث سٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھائو کے بعد مندے کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ ماہرین نے اس امر کی بھی نشاندہی کی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں اور کرونا کی نئی قسم کے خوف سے بیرون ملک اٹھائے جانے والے احتیاطی اقدامات کے باعث دنیا بھر کی مارکیٹیں گراوٹ کا شکار ہیں جس کے منفی اثرات بازار حصص پر مرتب ہوئے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی کرنسی کے مقابل ڈالر کے نرخ عملاً بے قابو ہو چکے ہیں اور گزشتہ روز انٹر بنک ڈالر کے نرخ مزید 94 پیسے بڑھنے سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ گئی۔ نتیجتاً اوپن مارکیٹ میں ڈالر 177 روپے سے بڑھ کر 178 روپے تک جا پہنچا۔ فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کے بقول ملک کے تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ترسیلات زر میں کمی آ رہی ہے جس کے باعث روپے پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو بھی شدید مندے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کے بھی تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور سرکلر ڈیٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 2419 ، ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت کے 38 ماہ کے دوران گردشی قرضہ میں 1271 ، ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں گزشتہ دو سال سے زائد عرصہ سے انسانی تباہ کاریوں کا باعث بنے کرونا وائرس نے دنیا کی مستحکم معیشتوں کا بھی انجرپنجر ہلایا ہے جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کا تو اپنے پائوں پر کھڑے رہنا بھی ناممکن ہو گیا۔ کرونا کا پھیلائو روکنے کے لئے دنیا کو عالمی ادارۂ صحت کے متعین کردہ ایس او پیز کے مطابق احتیاطی اقدامات اور پابندیوں کی جانب جانا پڑا جن میں جزوی اور مکمل لاک ڈائون بھی شامل تھا۔ نتیجتاً کاروباری ادارے، مارکیٹیں ، صنعتیں ، فیکٹریاں بند ہونے سے پیداواری عمل رکا، اشیاء کی کمیابی و گرانی ہوئی اور بے روزگاری کے جھکڑ چلنے لگے چنانچہ دنیا کی معیشتوں کو سنگین کساد بازاری سے دوچار ہونا پڑا۔ بے شک ترقی یافتہ اور مستحکم معیشتوں والے ممالک نے کرونا کا شکار ہونے والے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو امدادی پیکج دئیے اور ان کے واجب الادا قرضوں کی وصولی بھی مؤخر کی تاہم کرونا کے پھیلائو میں وسعت پیدا ہونے کے باعث لاک ڈائون جیسے احتیاطی اقدامات متاثرہ ممالک کی مستقل مجبوری بن گئے، اب اومیکرون کی صورت میں کرونا کی اٹھتی نئی لہر کے محض خوف نے ہی نڈھال معیشتوں کی رہی سہی جان بھی نکال دی ہے۔
ہمارے ملک کی معیشت تو کرونا سے بھی پہلے بدحالی کا شکار تھی جسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے پی ٹی آئی حکومت کو اپنے آغاز ہی میں سخت مالیاتی پالیسیاں اختیار کرنا پڑیں جن کے تحت مختلف مدوں سبسڈیز ختم کی گئیں۔ جی ایس ٹی، لیوی اور دوسری محصولات کی شرح میں اضافہ کیا گیا اور پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کو اڑان بھرنے کا آزادانہ موقع فراہم کیا گیا۔ ان اقدامات سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تو یقینا اضافہ ہوا اور ماضی کے ادوار کے مقابلہ میں گردشی قرضوں میں بھی نمایاں کمی ہو گئی مگر ان اقدامات کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی نے عام آدمی کی کمر دہری کر دی۔
ملک کو درپیش اس کٹھن صورت حال میں برادر سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے مجموعی 12 ارب ڈالر کے قریب مالی معاونت کے پیکج دے کر قومی معیشت کو سنبھالنے کی کوششوں میں ہاتھ بٹایا ،اس کے باوجود ہماری معیشت کی صورت حال دگرگوں ہی رہی چنانچہ حکومت کو پی ٹی آئی منشور کے برخلاف بیل آئوٹ پیکج کے لئے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا پڑا جس کی عائد کردہ شرائط کی بنیاد پر حکومت عالمی نرخوں سے ہٹ کر پٹرولیم مصنوعات کے نرخ پر پندھرواڑے بڑھانے پر مجبور ہوئی۔ اسی طرح بجلی، گیس، ادویات کے نرخوں میں اضافہ بھی حکومت کی مجبوری بنا اور پھر حکومت کو سالانہ میزانیوں کے علاوہ ضمنی میزانیوں کے ذریعے بھی مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانا اور بعض نئے ٹیکس لگانا پڑے۔ اس سے جہاں عام آدمی کی قوت خرید کم ہوئی وہیں آئے روز اٹھنے والے مہنگائی کے سونامیوں نے بھی اسے زندہ درگور کیا ۔
اگر ان سخت مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک کی معیشت کو استحکام حاصل ہو جاتا تو یقینا اس سے عوام کے اچھے مستقبل کی راہ بھی ہموار ہوتی مگر حکومت کے اقتصادی اور مالی مشیروں کی جانب سے اقتصادی استحکام کے دئیے جانے والے مثبت اشاریوں کے باوجود معیشت کو استحکام حاصل ہو پایا نہ عام آدمی کو اپنے گھمبیر ہوتے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل میں کسی قسم کا ریلیف مل سکا، اب حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی اگلی قسط کے حصول کی خاطر اس کی بعض نئی شرائط بھی قبول کی گئی ہیں جن پر عملدرآمد کے لئے حکومت کی جانب سے جلد ہی منی بجٹ لانے کا عندیہ مل رہا ہے جس سے زندہ درگور عام آدمی کے علاوہ ہماری معیشت بھی لرزہ براندام ہے۔ گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ کا کریش ہونا بھی اقتصادی ماہرین مجوزہ ضمنی بجٹ کی دہشت سے ہی تعبیر کر رہے ہیں۔
اگر ملک میں کساد بازاری کا عمل اسی طرح جاری رہا جس کے باعث ہمارے گردشی قرضے بھی بلندیوں کو چھوتے نظر آ رہے ہیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت کے ریت کی دیوار کی طرح دھڑام سے گرنے میں کیا کسر باقی رہ جائے گی۔ ملک کے غریب عوام کو تو پہلے ہی روٹی روزگار کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ضمنی بجٹ ان کے لئے مہنگائی کے نئے طوفان اٹھائے گا تو ان میں زندہ رہنے کی مزید کیا سکت پیدا ہو پائے گی۔ حکومت کو مجبورِ محض انسانوں کو روزمرہ کی مشکلات سے باہر نکالنے کے لئے اپنی مالیاتی پالیسیوں پر بہرصورت نظرثانی کرنا ہو گی۔ بصورت دیگر مجبور و مضطرب عواب تنگ آمد بجنگ آمد والے راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔