کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کی ضرورت
وزیراعظم عمران خان نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کی پالیسی سے کسی صورت پیچھے نہ ہٹیں گے۔ جو کوئی کرپشن کے معاملات پر مٹی ڈالنے کی کوشش کرے‘ مجھے بتائیں۔ موجودہ حکومت کی کرپشن کو بھی بے نقاب کیا جائے۔ کسی سے بھی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ وزیراعظم نے جمعرات کے روز پبلک اکائونٹس کمیٹی کے حکومتی ارکان سے ملاقات کے دوران یہ اعتراف بھی کیا کہ کرپشن کی نشاندہی کے باوجود مؤثر نتائج سامنے نہیں آئے۔ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کا مینڈیٹ لیکر ہی آئی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا محور ہی بلاامتیاز احتساب اور کرپشن کا خاتمہ تھا۔ پاکستان کے عوام نے بھی عمران خان کو ان کے اس ایجنڈے کی بنیاد پر ہی ووٹ دیئے تھے‘ لیکن انہیں اب شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ حکومت کی متعین مدت کا دوتہائی عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ تو احتساب کا عمل مکمل ہو سکا اور نہ ہی کرپشن کے خاتمے کا بیانیہ خاطرخواہ نتائج سامنے لا سکا۔ سابقہ حکومتوں پر تو یہ الزام تواتر کے ساتھ لگایا جاتا رہا کہ انہوں نے قومی وسائل کو بے دریغ لوٹا اور کرپشن کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اور بہت سے مقدمات قائم کرکے سابقہ حکمرانوں کو قیدوبند کے مراحل سے بھی گزارا گیا‘ لیکن نہ تو لوٹی گئی دولت واپس آسکی اور نہ ہی کرپشن پر کوئی بند باندھا جا سکا بلکہ الٹا اس کرپشن کی ہوشربا کہانیاں موجودہ حکومت کے دور میں بھی سامنے آنے کا انکشاف ہوتا رہا۔ کرونا فنڈز میں 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں اور حویلیاں‘ حسن ابدال ایکسپریس وے کی تعمیر میں 4 ارب کے گھپلوں کی اطلاعات تو تازہ ترین ہیں۔ اب جبکہ وزیراعظم نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کرپشن کے ذمہ داروں کے خلاف بلالحاظ کارروائی ہوگی تو مذکورہ کیسز کو حکومت کیلئے ٹیسٹ کیسز کے طورپر لینا چاہئے۔ ان کیسز کی غیرجانبدارانہ اور شفاف انکوائری کروائی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف بلاتاخیر تادیبی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کرپشن سابقہ ادوار کی ہو یا موجودہ دور کی‘ بہرصورت ایک قومی جرم ہے جس سے صرفِ نظر کرنا ایسے جرائم کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا۔