موت ایک عالم گیر اوراٹل حقیقت ہے
اس عالم رنگ وبو میں بہار قدرت کے جھونکوں سے رنگا رنگ کے پھول کھلتے ہیں ۔جن سے گلستان جسد روح میں نئی خوشبو مہک اٹھتی ہے ۔اور تعلق خاطر کے کانٹے اپنی زمہ داریوں کے ادا کرنے کیلئے اپنا سر اٹھاتے ہیں ۔مالی خوشی ومسرت سے جھومتا ہے اور صاحب گلشن پھولا نہیں سماتا ۔ اور سطح چشم سے دھند کے اجالے اتارنے اور انہیں نئی زندگی بخشنے کی غرض سے ہزاروں قدم اسی گل لالہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ابھی لہر خزاں آئی ہے اور آبروئے چمن لوٹ کر لے گئی ،نہ بلبل کی آہ وبکا کا خیال نہ مالی کی شب وروز محنت کا لحاظ نہ صاحب گلشن کے ارمان کا احساس نہ ان گنت جذبات عقیدت کا تصور، نہ ان لاتعداد مکھیوں کی محروی کا درد، جو اس گل سر بند کو چوس کر اپنا چھتہ بناتی اور شہد تیار کرتی ۔نہ اس معصوم نسل نخل کی زندگی وموت کا احساس، جو اس شہد سے پرورش پاتے۔نہ ان مبتلائے مرض انسانوں کو دلاسا ، جو اسی جو س سے تمنائے شفا رکھتے نہ ان مسافر ان راہ کی پرواہ جو اسی سے زاد راہ اخذ کرتے ۔نہ ان عازمین راہ عدم کی فکر جن کی آخری زینت یہی پھول بنتا۔بس آئی سخت پہروں کو توڑتے ہوئے لاکھوں عقیدتوں کو روندتے ہوئے کروڑوں تمنائوں کو لٹادتے ہو ئے لاتعداد جذبات کو مجروح کرتے ہوئے اس ہمہ صفت موصوف کو دنیا سے جدائی کر گئی ۔
موت ایک عالمگیر اور اٹل حقیقت ہے ۔ہر سخص نے اس دار فانی سے موت کی آغوش میں جانا ہے اس دنیا میں وسطوت اور جاہ وحشمت والے شہنشاہ آئے اور موت کے بے رحم ہاتھوں سے پیوندخاک ہوگئے اگر یہ زندگی کسی کا ساتھ دیتی تو سقراط زہر کا پیالہ پینے پر مجبور نہ ہوتا اگر زندگی کو دوام ہوتا تو سکندر اعظم ہاتھ کفن سے باہر نکال کر یہ نہ کہتا "نصف جہاں پر حکمرانی کرنے والا شہشاہ آج خالی مٹھیوں دار فانی سے کوچ کر رہا ہے۔اگر وقت کسی کا ساتھ دیتا تو سفاک حجاج بن یوسف نزع کے عالم میں اپنی زندگی کا ماتم ہو گزنہ کرتا اگر زندگی باوفا ہوتی تو ظہیرالدین بابر اپنے لخت جگر کی شدت مرض سے گھبرا کر کبھی نہ مرتا۔یہ دنیا فانی ہے ہر جاندار چیز نے موت کا مزہ چھکنا ہے اور اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو نا ہے اور اپنے اعمال کا حساب وکتاب دیتا ہے اس گردش لیل ونہار میں ہم اپنی آنکھوں سے ہنستے بستے گھروں کو اجڑتے اور گل وانگیں کے وارثوں کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھتے ہیں اگر موت کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھنا ہے تو کبھی قبرستان جاکر اس کا نظارہ کریں اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ دنیا بے حقیقت ہے اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوگی اور ہمارے دلوں میں یہ احساس اجاگر ہوجائے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے تو پھر ہم اس چند روزہ زندگی میں اپنی ابدی زندگی کا سامان پیدا کریں اور اس فانی زندگی کی عارضی لذتوں سے کنارہ کش ہوجائیں۔جب متقی اور پرہیز گار بندے کا اس درر فانی سے رخصت ہونے کا وقت قریب آتا ہے تو اس کی خوشبو عرش معلی تک پہنچ جاتی ہے رب جلیل کہتا ہے کہ جبرائیل یہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے ؟جبرائیل عرض کرتا ہے یہ خوشبو تیرے اس نیک بندے کی ہے جو زمین پر تیری حمد وثناء بیان کررہا ہے اللہ رب العزت کہتا ہے کہ یہ خوشبو دنیا کو بہت معطر کرچکی ہے اب میں اس خوشبو کو جنت الفردوس کی زینت بنانا چاہتا ہوں اس مقدس ہستی کی روح قفس عنصری سے پرواز کرکے جنت الفردوس کی زینت بن جاتی ہے اور جب مشرک اور منافق ،فاسق اور فاجر پر نزع کاوقت آتا ہے تو وہ تڑپ تڑپ کر ذلت اور رسوائی کی موت مرتا ہے اور جہنم کے عمیق گڑھوں میں ڈال دیا جاتا ہے ۔اگر تم دنیا اور آخرت میں کامیابی چاہتے ہو تو موت کو ہر لمحہ وہرلحیظ ہرگھڑی ،ہروقت یادکرو۔عامل قرآن بن جائو خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوکر انسانیت کی خدمت کرو یہی آرزوے اسلام ،غایت زندگی اور فطرت انسانی کا تقاضا ہے ۔