ڈاکٹر غلام حسین ۔میری داستان جدو جہد… 2
جہلم جو شہدا ء اور غازیوں کی سرزمین ہے جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء میں پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑا اور نہ ہی مارشلائی حکومت کے سامنے اپنی رہائی کی بھیک مانگی ان کی سوانح عمری ان کی ذاتی اور سیاسی زندگی کا احاطہ کرتی ہے جن سے عام لوگوں کو آگاہی نہیں شہدا ء اور غازیوں کی سرزمین سے ایک جرات مند سیاست دان کا پیدا ہونا علاقے کے عوام کے لئے عزت و توقیر کا باعث ہے ڈاکٹر غلام حسین نے اپنی خود نوشت میں میرے شہر راولپنڈی کے ایک دیانت دار اور انقلابی لیڈر خورشید حسن میر کی تصویر بھی شائع کی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان کی کمپنی کس مزاج کے لوگوں کے ساتھ تھی ڈاکٹر صاحب
نے اپنی کتاب میں دریائے جہلم کے کنارے دفن بابا خاکی شاہ شہید کے مزار کا بھی ذکر کیا ہے ان کا نام مرزا دلدار بیگ تھا جو فرنگیوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے40ساتھیوں سمیت سر عام پھانسی پر لٹکا دئیے گئے اس کتاب میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی جیل یاترا کا منظر قلمبند کیا ہے جو ان کو ایوب خان کے دور میں میانوالی جیل میں ڈالے جانے پر پیش آیا تھا یہ منظر کشی بھارتی جاسوس موہن لال بھاسکر عرف عام محمد اسلم نے رہائی کے بعد پنجابی زبان میں اپنی کتاب میں کی تھی ڈاکٹر صاحب نے جنرل یحییٰ خان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کچھ اس طرح منظر کشی کی ہے جیسے سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو انہوں نے ایوب خان کے اقتدار کے زوال کی داستاں بیان کی اور 25مارچ1969ء کو مارشل لا ء لگائے جانے اور جنرل یحییٰ خان کا اقتدار سنبھالنے کا لمحہ بہ لمحہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر دیا ڈاکٹر صاحب نے فروری1970ء میں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے خلاف 113علما کرام کے فتوے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ڈاکٹر صاحب نے اپنی خود نوشت میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمنٰ کے 6نکات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا انہوں نے بھلے بسر 6نکات کی یاد تازہ کر دی ہے یہی وہ 6نکات تھے جو یحییٰ خان کو قبول تھے اور نہ ہی شیخ مجیب الرحمن 6نکات پر کوئی بات
چیت کرنے کے لئے تیا رتھے دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو یحییٰ خان کے ساتھ مل کر شیخ مجیب الرحمنٰ کو پورے پاکستان کے اقتدار کی دوڑ سے آئوٹ کرنے کے کوشاں رہے آرمی ایکشن کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا اور بچے کچھے پاکستان ( مغربی پاکستان )کے اقتدار کو ہی اپنی منزل سمجھ کر کم و بیش 6سال تک اقتدار رہے بالآخر جنرل ضیا الحق نے پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے دو لخت ہونے میں ذوالفقار علی بھٹوکے کردار کا دفاع کیا ہے اگرچہ یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن کو ملک کا آئندہ کا وزیر اعظم بنانے کا اعلان کر دیا لیکن شیخ مجیب
الرحمن ذوالفقار علی بھٹو کچھ نہیں دینا چاہتے تھے اقتدار کی بند ر بانٹ کی لڑائی نے پاکستان کو ہی دولخت کر دیا ذوالفقار علی بھٹو نے 14مارچ 1971ء کوکراچی کے جلسہ میں ہی ’’ ادھر ہم ادھر تم ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اس نعرے کو مختلف معنی اپنائے گئے ڈاکٹر صاحب اس سرخی کو رسوائے زمانہ سرخی کا نام دیتے تھے یہ سرخی عباس اطہر مرحوم نے روزنامہ آزاد کے ماتھے پر سجائی تھی بہر حال ڈاکٹر صاحب نصف صدی گذرنے کے بعد بھی اپنے قائد کی اس متنازعہ تقریر کا زور دار انداز میں دفاع کر رہے ہیں انہیں کرنا بھی چاہیے وہ تو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی تھے ان کا اختلاف تو ان کے وارثوں سے ہوا جو اب تک قائم ہے بہرحال سانحہ مشرقی پاکستان بارے میں یہ کتاب تاریخ کے ایک باب کی حیثیت رکھتی ہے جس کے کچھ حصوں کو من و عن تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ کچھ حصوں سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے اس کتاب میں احمد رضا قصوری کا ذکر ہے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی جانب 6نکات پر کوئی سمجھوتہ ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کی مخالفت کی تھی ذوالفقار علی بھٹو نے احمد رضا قصوری کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر قومی اسمبلی کا استعفاٰ دینے کا حکم دیا تو انہوں نے استعفاٰ دینے سے انکار کر دیا ڈاکٹر غلام حسین اس وفد کا بھی حصہ تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں شملہ میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کئے اور پھر شملہ معاہدہ ہوا
جس کے نتیجے میں ہاری ہوئی جنگ کے95ہزار فوجیوں کی وطن واپسی ممکن ہوئی بہر حال کئی لحاظ ’’شملہ معاہدہ‘‘ ایک متنازعہ معاہدہ ہے جسے کچھ لوگ مذاکرات کی میز پر ذوالفقار علی بھٹوکی کامیابی قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ لوگ اس معاہدہ کو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے باہر نکالنے کی کوشش قرار دیتے ہیں ڈاکٹر صاحب بھی شملہ معاہدہ کو اندرا گاندھی کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ڈپلو میٹک ‘‘ فتح سمجھتے ہیں انہوں نے احمد رضا خان کے والد محمد احمد قصوری کے بھگت سنگھ کی پھانسی کی توثیق کرنے بارے میں کردار کو بھی زیر بحث لایا ہے اس طرح انہوں نے محمد احمد قصوری کی ہلاکت کا جواز تلاش کر لیا ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہونے والے سیاسی قتل و غارت سے ڈاکٹر صاحب نے انہیں بری الذمہ قرار دے دیا ہے جب کہ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو منتقم مزاج نہ ہو تے تو طویل عرصہ تک اقتدار میں رہتے کیونکہ وہ ایک مقناطیسی جو کچھ مجھے بتایا میں اس کتاب میں اس کو تلاش کرتا رہا لیکن نہیں ملا یہ تو ڈاکٹر غلام حسین کا بڑا پن ہے انہوں نے تمام اچھی باتیں ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب کر دیں ڈاکٹر صاھب نے کتاب میں ’’سیاسی جبر کے سائے ‘‘، یل میں گذارے ماہ وسال ، جبری جلاوطنی اور سویڈن کے شب و روز کے عنوان سے ابواب میں ان تکالیف کو بیان کیا ہے جو سیاسی جبر کے دور میں ایک انقابی سوچ رکھنے والے لیڈر برداشت کرنا پڑتا ہے جلاوطنی کے بعد وطن واپسی اور جیل یاترا کو
انہوں نے قلمبند کیا ہے انہوں نے پیپلز پارٹی (ذوالفقار علی بھٹو ‘ بنائی تھی لیکن جب مرتضی بھٹو کو ایک پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تو انہوں نے اپنی جماعت تحلیل کر کے پیپلز پارٹی (ش ۔ ب) میں شمولیت اختیار کر لی ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنی پارٹی میں واپس آگیا ہوں اور میری سیاسی تنہائی ختم ہو گئی ہے (ختم شد)