73 سال ہوئے ملک کو آزاد ہوئے۔ لیکن آج تک ملک جس حالت میں ملا مجال ہے اُس میں ایک کیل کا بھی اضافہ ہوا۔ چاند کی بات چھوڑ کر مریخ کو چھونے کے سہانے سپنے تو دکھائے جا سکتے ہیں ویسے تانگے کا پہیہ بھی ماڈرن نہیں کیاجاسکا۔
وہ حکمران کون سے آسمان پر پیدا ہوئے تھے جنہوں نے سنگاپور کی محدود جگہ پر عالیشان صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک بنایا۔ تائیوان والے لیڈر کیا کھاتے تھے کہ چھوٹے سے ملک کو آسمان پر لے گئے۔ امریکہ سے اینٹ سے اینٹ بجوانے والا ویت نام راکھ کے ڈھیر سے کہاں چلا گیا۔ جاپان دو ایٹم بم کھا کر بھی دنیا کی صنعتی طاقت بنا۔ جرمنی کو تباہی کے کنارے چھوڑا گیا وہ آج کہاں ہے۔ سری لنکا جیسا ملک کیسے اوپر اُٹھ رہا ہے۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے کون سی آیات کا وِرد کیا۔ہمارے یہاں کسی نے ملک کو جمہوری بنانے، کسی نے ایٹمی طاقت بنانے، کسی نے روٹی کپڑا مکان دینے اور کسی نے کروڑ نوکریاں اور لاکھوں مکانوں کا وعدہ کیا۔ مولویوں نے اپنے رزق کے لئے فرقے مضبوط کئے۔یوں لگتا ہے دنیا میں ایک سرکس لگی ہوئی ہے اُس کے مسخرے پاکستان میں ہیں۔ نہ اُستاد تعلیم آگے بڑھانا چاہتے ہیں، نہ ڈاکٹر مریض کو اچھا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، نہ انصاف والے لوگوں تک سستا انصاف پہنچنے دیتے ہیں، نہ غربت دور کی گئی، نہ روزگار بڑھا، نہ کارخانوں کی پیداوار میں بہتری اور اضافہ ہوا، نہ مزدور کے حالات بدلے، نہ زرعی ملک ہوتے ہوئے خوراک میں خودکفیل ہوئے، نہ جرائم ختم ہوئے، نہ سمگلنگ، نہ منشیات، نہ دھندا، نہ ملاوٹ، نہ رشوت، نہ ٹیکس پورا ملا، نہ محاسبہ ختم ہوا، نہ تہمتیںاور طعنے ختم ہوئے، نہ الزام تراشیاں، نہ تجوریاں بھرنے والوں کی نظر اور پیٹ بھرے، نہ ریل ٹھیک ہوئی، نہ ہوائی جہاز چلا اور نہ سٹیل مل، نہ امن آیا، نہ مافیا ختم ہوا، نہ قبضہ گروپ ختم ہوئے اور نہ ملک کے اندر کوئی نئی انڈسٹری آئی۔لوگوں کو روزگار ملنے کی بجائے پہلے والوں کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ نہ معاشی منصوبہ بندی، نہ اقتصادی منصوبہ بندی، نہ ڈیم کی منصوبہ بندی، نہ بجلی کی پیداوار بڑھی۔ زبانی کلامی دودھ کی اور شہد کی نہریں نہیں دریا نہیں سمندر بہا دئیے۔
ناجائز تعمیرات کی مسماری، کیا یہ راتوں رات بن گئیں جب بن رہی تھیں کس کی ڈیوٹی تھی۔ سرکاری ملازم کی جیبیں بھر کر آنکھیں بند کی گئیں، بلڈنگز گِرا دیں لیکن جن سرکاری ملازموں کی سرپرستی میں یہ سب ہوا اُن کو بھی موت کے پھندے تک لائیں۔
حکومت کے بڑے عہدیداران کی سرپرستی میں ملک میں بھکاری انڈسٹری اُس میں ایندھن بھرنے کے لئے نوزائیدہ بچوں کے اغواء اور خرید وفروخت، ٹریفک قوانین کی دھجیاں سرعام اُڑ رہی ہیں۔
نہ ملاوٹ والوں کو کوئی خطرہ، نہ منشیات فروشوں کو کسی کا ڈر، ملکی حالات میں لیڈروں کی لوٹ کھسوٹ، عوام سے کئے گئے وعدوں سہانے سپنوں سے روگردانی، لیڈروں کی ایک دوسرے کو غیرملکی ایجنٹ کے القاب، چور، ڈاکو کہنے کی روایت سن کر دیکھ کر قے آجاتی ہے۔دراصل یہ اور سینکڑوں ایسے دل شکن کارنامے غیرملکی ایجنڈے کے تحت کئے جا رہے ہیں جیسے ہر سیارچہ اپنے ’’مدار‘‘ کے گرد گھومتا ہے ایسے ہی ملک میں ہر شعبے کے لوگ اپنے اپنے آقائوں کی طرف سے دئیے گئے مشن کو آگے بڑھا کر قوم کے دِلوں میں بے چینی پیدا کرنے کے علاوہ مستقبل سے مایوسی کی طرف لیجانے میں لگے ہوئے ہیں۔
چین میں ایسا کیا ہے۔ چین افیمچیوں سے چلا اور تمام مشکلات اور دشمنوں کے پھیلائے ہوئے جالوں کو توڑ کر سوا سوکروڑ لوگوں کے ملک کو ایک عظیم طاقت میں ڈھال دیا۔مانا کہ ان تمام ملکوں کی لیڈرشپ بڑی مخلص ہیں اور تھیں۔ لیکن وہاں کی عوام نے عزم، حوصلہ اور دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کے لئے دن رات ایک کرکے اپنی قوموں کو ترقی سے ہمکنار کیا اور وہ لوگ اپنے ملک اپنی قوم پر فخر کرتے ہیں۔کیا ہم کسی بھی چیز جو قیمتوں میں آپے سے باہر ہو اُس کا بائیکاٹ کر کے اُن کے مافیاز کو سبق نہیں سکھا سکتے۔ ہمیں اپنی عادات کو بدلنا ہو گا۔ قومیت، قومی وحدت، بھائی چارے اور قربانی کا سبق سیکھنا ہو گا۔ محنت کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی۔ ہم چھجو کے چوبارے پر بیٹھ کر دوربین سے IMF، ورلڈ بینک، ایشین بینک، سعودی اور امریکن قرضوں اور خیرات کی راہ تَک رہے ہوتے ہیں۔قوم سنجیدہ ہو ہی نہیں رہی۔ کتنے لوگ ہیں جو رشوت اور جنسی درندگی کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ ہمیں بطور قوم سنجیدہ ہونا ہو گا اور رشوت اور جنسی درندگی کے خلاف آوازاُٹھاناہوگی۔اشفاق صاحب نے انارکلی کے باہر فٹ پاتھ پر قیمتی کتابوں کو زمین پر رُلتے دیکھا تو دوسری طرف جوتوں کی دکان میں سجے بوٹوں کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ ’’اس قوم کو کتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔‘‘
ایک وقت تھا جب ہٹلر انگریزوں کو دکانداروں کی قوم کہتا تھا پھر اُسی قوم پر ایک وقت آیا کہ اُن کی زیر کمان مملکتوں پر کبھی سورج نہیں ڈوبا تھا۔کہاں گئے وہ مشاعرے اور وہ شاعر جو قوم کا مورال اپنے کلام اور اشعار سے بلند کرتے تھے اور اپنے محافظوں کا خون گرماتے تھے اور اُن کو پُرجوش کرتے تھے۔ اقبال تو جا ہی چکے تھے۔ لیکن پھر بھی فیض، جمیل الدین عالی، حبیب جالب، قتیل شفائی، احسان دانش، دامن، نظام دین، اشفاق صاحب، بانو قدسیہ اور درجنوں نامور لوگ تھے۔ اب تو لگتا ہے تمام کاروبارِ زندگی رُک سا گیا ہے۔ کیا اب بڑے لوگ پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024