محترم سعید آسی کے اس شعر کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ پارسا ہونا ، صفت کاملہ نہیں لیکن جو کہ نا واقف آداب غلامی ہے ابھی،کہ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے کے ساتھ قہاری و جبروت کی ضرورت بھی پڑتی ہے کہ ہو حلقہ یاراںتو بریشم کی طر ح نرم ، تو ضرورت پارسائی ہے کی ہے لیکن آج کی دنیا کی رزم باطل میں فولاد جیسے مومن کی ضرورت پڑتی ہے ،تو پھر نعرہ قلندری لگاتے ہوے رند وں کی ہی ضرورت پڑ تی ہے، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ، بے خطر کود پڑتے اور جان نثار ہونے کو تیار ہیں۔ خود غر ضیوں سے دور بہادرقیا دت کی ضرورت ہے جو کہ ہنوز بہت دور دور تک پاکستان اور مسلم دنیا میں نظر نہیں آ رہی ملکی سطح پر ان کے فیصلوں میں رندانہ خودداری ، خود مختاری کہیں تو نظر آے۔ آج تو ایسے لگ رہا ہے کہ تیسری دنیا کا ہررہنما ، ایک غیر محسوس دبائو کا شکار ہے یا اپنے مفادات کا اسیر ہے، کب تک محکوموں کے لاشے اٹھتے رہیں گے کبھی آج ایران، وینزوویلا پر پابندیاں،، کوئی ایف اے ٹی ایف کا شکار تو کوئی کشمیر پر قبضہ کر رہا ہے ۔قیادت کا نہ جری ہونا ، آج کا سب سے بڑا المیہ ہے اور یہ صریح خوف کی علامت ہے جو کہ صدر اوبامہ نے اسامہ پر حملے کے وقت پاکستان کی قیادت کی بزدلی کا ذکر خیر بھی ہے کہ کس طرح ایک ایٹمی طاقت کے حکمران یا صاحب اقتدار اسامہ کے قتل کے واقعے پر آنکھیں چرارہے تھے۔ جب مجھے نیلسن منڈیلا کی ایک خود نوشت سوانح یاد آ گئی جس کے دیبا چے میں جو صدر کلنٹن نے لکھا کہ میں نے ایک موقع پر منڈیلا سے پوچھا کے کیا تم اتنی لمبی ستائئس سال کی قید کے بعد جب جیل سے نکل رہے تھے تو تمھاری نفرت کاکیا عالم تھا، تو منڈیلا نے کہا ہاں مجھے شدید نفرت تھی ان کے خلاف جنہوں نے مجھے اتنی دیر تک قید رکھا ،میری شادی ضائع کی گئی، میرے بچوں کو اتنی دیر مجھ سے دور رکھ گیا، اور میری زنذگی کے بہترین سال جیل کی سلاخوں کی نذر ہوئے لیکن جب میں اس کار کے پاس پہنچا جس سے میں نے اتنے طویل عرصے یعد جیل سے باہر جانا تھا میں نے محسوس کیا کہ اگرچہ میں اب بھی ان سے اسی طرح نفرت کرتا رہا، وہ کہیں مجھے دوبارہ قید میں نہ ڈال دیں، تو میں کیوں نہ ، اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے آزادی حاصل کر لوں اور میں نے دشمن سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا، جو میرے ساتھ کی گئی سختیوں کو دیکھتے ہوئے ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اس طرح مذاکرات میں آپ کا دشمن آپ کا پارٹنر بن جاتا ہے۔ منڈیلا لکھتاہے کہ اس کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھا کیونکہ جابر ہی ہمیشہ کوشش ، اور مزاحمت کی نوعیت، سمت ترتیب دیتا ہے۔ یہ وہ تا ریخی الفاظ ہیں جو ستائیس سال جیل کاٹنے والے دنیا کے سب سے بڑے لیڈر نے کہے کہ آپ کواتنی قربانی ، مزاحمت کے باوجود اگر مذاکرات کرنے پڑیں ، تو اس میں عقلمندی ، دانائی ہے۔ کیونکہ طاقت کا ایک اپنا ہی نظریہ ، فلاسفی ہے، جو صرف طاقت کو مانتی ہے۔کلنٹن کے بقول، مذاکرات اور ظالم کے ساتھ شراکت اقتدار منڈیلا کے زرخیز ذہن کے پیداوار تھی،اور بقول کلنٹن ، اتنی دور اندیش ، اور جرات مند سوچ کے بغیر افریقہ کی آزادی ممکن ہی نہ تھی۔جس طرح منڈیلا نسل پرستی کے خلاف اپنے اصولوں اور نسل پرستی کے خلاف مائنڈ سیٹ پر ڈٹا تھا، تو اس کو یہ بھی پتہ چل گیاتھا کہ جابر اورظالم حکومت بھی تنگ نظری اور تعصب کی قید اور مانڈسیٹ میںتھی ، ان کے لئے بھی آزادی دینا اتنا ہی ،ناقابل قبول، کٹھن فیصلہ تھا۔اوپر بیان کئے گئے واقعات میںآزادی کو حاصل کرنے کے لئے ذاتی قربانی اور بے لوث جرات مند قیادت کی ضرورت کا ذکر کیا گیا ہے جو آج وقت کی ضرورت ہے۔ پنڈت نہرو بھی اپنی سیاسی فلسفے ، ہندوازم کو بغل میں چھری منہ میں رام رام جپتے انڈیا کو بڑی طاقتوں سے بچا کر کشمیر کو ہڑپ کر گیایہی نہیں چینی لیڈر ماوزے ڈانگ کمیونسٹ ہوتے ہوے امریکا سے شراکت داری کر گئے،ایسی ہی دور اندیش ، خود مختارقیادت کا آج کا پاکستان طلبگار ہے ۔ کلاس سٹرگل، مفادات کا ٹکرائو کمیونسٹ نظریات کے مطابق ، دنیا میں سوشل آرڈر صرف وسائل پر قبضہ کے لئے نہ ختم ہونے والی مسابقت کے نتیجہ سے حاصل شد متبدل طاقت سے قائم رہتا ہے نہ کہ زبانی بقول شاعر سعید آسی پارسائی کے خالی دعوئوں سے ۔یہ حقیقت، منڈیلا ، مائو، ڈینگ سیائو پنگ جیسے رندوں کومسابقت کے نام پر نظریاتی دشمنوں سے بظاہر مفاہمت پر مجبور کرتی ہے لیکن غلامی نہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38