عاشق رسول میر ظفر اللہ جمالی

میر ظفر اللہ جمالی قومی اسمبلی میں کھڑے بول رہے تھے، وہ گرج رہے تھے وہ برس رہے تھے انہوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ کون ہے وہ جو ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کا قانون لے کر آیا، کیا یہ کمیٹی نے کیا ہے اگر کمیٹی نے کیا ہے تو پھر کمیٹی میں شامل اراکین کھڑے ہوں اور تسلیم کریں کہ یہ انہوں نے کیا ہے اگر یہ کمیٹی کا کام نہیں پھر یہ حکومت نے کیا ہے۔ جب وہ یہاں تک بولے تو لمبا سانس لیا پھر گرجے وہ کوئی بھی ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ قومی اسمبلی میں یہ جرات کون کر سکتا ہے۔ یہ اعزاز صرف میر ظفر اللّہ خان جمالی کو حاصل ہے اللہ نے ان ہر خاص رحمت کی کہ انہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں کھڑے ہو کر اراکین اسمبلی کو اس حدیث مبارکہ کی طرف بلایا "لا نبی بعدی"،
انہوں نے ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین کا پیغام اس ایوان میں لوگوں تک پہنچایا جہاں بیٹھے لوگوں کے لیے شاید ایمان، ختم نبوت، شریعت سب کچھ وقتی ہے اور ایسی تمام چیزوں پر سمجھوتا ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں پہنچنے والے وہاں قیام طویل کرنے کے لیے ہر چیز پر سمجھوتے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اس وقت ن لیگ کی حکومت تھی سردار ایاز صادق اسپیکر کی سیٹ پر بیٹھے تھے آج وہ اچھل اچھل کر آرمی چیف کے بارے لوگوں کو بتاتے ہیں ذرا ہمت کریں اور ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی مکروہ ترین کوشش کرنے والوں ان کی سرپرستی کرنے والوں اور پس پردہ رہ کر یہ مہم چلانے والوں کے نام بھی سامنے لائیں۔
اس وقت میاں نواز شریف کی جماعت حکومت میں تھی آج میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر اپنی حکومت کے چھن جانے اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میاں صاحب میر ظفر اللّہ خان جمالی نے ان اسمبلیوں کے مرنے کی دعا کی تھی آپ کی جماعت حکومت میں تھی آپکو انتخابات میںنتائج بدلنے والے نظر آئے، آپکو چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی تو نظر آ گئے لیکن میاں صاحب آپکو ختم نبوت کے قانون پر ڈاکہ ڈالنے والے نظر نہیں آئے۔ اس اسمبلی میں صرف ن لیگ شامل نہیں تھی اس اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین شامل تھے ان میں سے آج کچھ حکومت میں بھی ہوں گے۔ اس حکومت میں بھی ختم نبوت اور ناموسِ رسالت پر اپنا کردار نہیں نبھایا۔ کاش میر ظفر اللّہ خان جمالی اسمبلی میں ہوتے اور وہ کھڑے ہو کر دوبارہ کہتے کہ ان اسمبلیوں کو تباہ ہو جانا چاہیے۔ ایسی اسمبلیوں اور ان کی رکنیت کو کیا کرنا ہے جہاں اراکین کو اپنے حلقوں کی فکر تو ہو لیکن انہیں ناموسِ رسالت اور ختم نبوت کی کوئی فکر نہ ہو۔ ایسی ہزاروں لاکھوں کروڑوں اور قیامت تک آنے والی اسمبلیاں تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ناموس و حرمت پر قربان ہوں لیکن بدقسمتی سے سینکڑوں کے ایوان میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی اور اکیلے میر ظفر اللّہ خان جمالی اس اسمبلی کو چھوڑ کر نکل آئے۔ اللہ اللہ اللہ اللہ
ہماری بدقسمتی دیکھیں جنہیں ہم رہنما کہتے ہیں ان کے سامنے حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ان کی طرف سے ان مکروہ حرکتوں کو روکنا تو درکنار کسی کو محض بولنے کی جرات بھی نہیں دی۔ سب خاموش تھے شاید ایک دوسرے کی طرف بھی نہیں دیکھ رہے ہوں گے آنکھیں بچا رہے ہوں گے ان حالات میں بلوچستان کا سردار اٹھتا ہے وہ ختم نبوت کا پرچم بلند کرتا ہے اور اس جرم میں شریک اراکین کو سامنے لانے اور انہیں سزا دینے کا مطالبہ کرتا ہے، ان حالات میں ایک بلوچ سردار اپنی رکنیت قربان کرنے کے لیے اٹھتا ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والوں کو جگانے کی کوشش کرتا ہے انہیں سکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جاگ جاؤ جاگ جاؤ دنیا و آخرت خراب نہ کرو لیکن یہاں لوگوں کو اپنے بیلٹ باکسز کی حفاظت کی فکر تو رہتی ہے لیکن ختم نبوت ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ سب خاموش رہے اور میر ظفر اللّہ خان جمالی بازی لے گئے۔ انہوں نے اس سیاہ دور میں ایمان کی شمع روشن کی، انہوں نے اس تاریک دور میں نبی پاک حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس اسمبلی کی رکنیت کو ٹھکرایا اور یہ کہہ کر گھر چلے آئے کہ میں اس اسلمبلی میں کیسے رہ سکتا ہوں جہاں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بات ہو۔
کیا رسول صرف میر ظفر اللّہ خان جمالی کے تھے، کیا ختم نبوت کے حوالے سے کام کرنا صرف میر ظفر اللّہ خان جمالی نے کام کرنا تھا، کیا کسی رکن قومی اسمبلی میں یہ احساس موجود نہیں تھا کہ یہ ملک اللہ کے نبی کے نام پر قائم ہوا ہے۔ اس ملک کی بنیادوں میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا نعرہ لگاتے قربان ہونے والوں کا خون شامل ہے۔ یہ سیاست دان ان شہداء کو کیا جواب دیں گے کہ نبی کریم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں۔ وہ بدبخت اس حکومت کا حصہ بھی ہیں۔ ایسے تمام کرداروں کو بے نقاب ہونا چاہیے اور ایسے تمام کرداروں کو نشان عبرت بھی بنانا چاہیے۔ ایسی اسمبلیوں کو موت ہی آ جائے تو بہتر ہے جو ناموس رسالت کا تحفظ نہ کر سکیں۔ جہاں مولانا فضل الرحمن جیسے جید عالم موجود ہوں اور وہ یہ بھی کہیں کہ اسمبلی سے اجتماعی گناہ ہوا ہے لیکن خود مولانا کچھ نہ کر سکیں اور چپکے سے نکل جائیں لیکن جب انہیں اسمبلیوں سے نکالا گیا ہے تو ان کی چیخیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں۔ اگر ہمارے سیاستدان، ہمارے حکمران ان مکروہ کرداروں کو بے نقاب نہیں کریں گے تو پھر یاد رکھیں جس نے قرآن کریم میں اعلان کیا ہے کہ ما کان محمد محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وہ جو خالق کائنات ہے وہ کہ کائنات جس کے "کن" کہنے کی محتاج ہے وہ ایسے مکروہ کرداروں کو خود بے نقاب بھی کرے گا اور انہیں عبرت ناک انجام تک بھی پہنچائے گا۔ آج جو چیخ رہے ہیں یہ اپنے اعمال ہر نظر دوڑائیں اور جو آج بیٹھے ہیں معافی انہیں بھی نہیں ملے گی۔ ان اسمبلیوں کے لیے میر ظفر اللہ خان جمالی کی طرف سے کی گئی موت کی دعا ضرور قبول ہو گی۔
جمالی صاحب برسوں تک باقاعدگی کے ساتھ بیت اللہ شریف اور روضہ رسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم پر حاضری دیتے رہے انہوں نے کہا کہ میں وہاں جا کر کیا منہ دکھاؤں گا، کیا بات کروں گا کہ میرے سامنے یہ سب کچھ ہوتا رہا اور میں خاموش رہا۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں رسول اللہ سے گہری محبت کا عملی مظاہرہ کیا انہوں نے شان و شوکت اور عہدوں کو ٹھکرا کر عشق رسول اور محافظ ختم نبوت بننے کو ترجیح دی یہ اعزاز خاص رحمت والوں کو ہی ملا کرتا ہے۔ انہوں نے اس اسمبلی سے نکلنے کو ترجیح دی یہاں ایسی مکروہ حرکتیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے اس اعلانیہ ختم نبوت کا مقدمہ لڑا اور ایک سبق چھوڑ گئے ہیں ایک مثال قائم کر گئے ہیں اس مثال کو کوئی اور آگے بڑھائے یا نہ بڑھائے لیکن جمالی صاحب کے خاندان نے اسے ضرور آگے بڑھانا ہے۔ وہ ایک عظیم مقصد کے ساتھ خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، موت کو گلے لگا لیا ہے لیکن وہ عظیم مقصد زندہ ہے۔ ان کے خاندان پر سب سے بڑی ذمہ داری اس مقصد کو زندہ رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل ہمت و استقامت عطاء فرمائے اور میر ظفر اللّہ خان جمالی کے درجات بلند فرمائے۔ آمین