پاکستان کرکٹ بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان نے آسٹریلیا کے خلاف شکست کے بعد قوم کو صبر کی تلقین کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ صبر بہت اہم ہوتا ہے، جیت کے ساتھ شکست کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن شکست سے دنیا ختم نہیں ہو جاتی۔ کہتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہمیں صبر کرنا چاہیے، ہم طویل المدتی کوششیں کر رہے ہیں اور یقین ہے کہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
وسیم خان ملکی کرکٹ کی تاریخ کے سب سے مہنگے افسر ہیں۔ پیسے کمانا ان کا حق ہے، ضرور کمائیں لیکن یہ صبر انہوں نے اپنی تنخواہ مقرر کرواتے وقت کیوں نہیں کیا، اگر صبر ہی کرنا ہے تو وہ بھی صابرین میں شامل ہو جائیں بلکہ صابرین کی قیادت سنبھالیں اور قوم کے ساتھ وعدہ کریں کہ میں بھی روکھی سوکھی کھاؤں گا، ہر شکست پر اپنا ٹیلی ویڑن توڑوں گا، جب تک ٹیم جیت نہیں جاتی رضاکارانہ کام کروں گا، بات صبر کی ہے تو وسیم خان بیرون ملک دوروں کے وقت صبر کیوں نہیں کرتے۔ جب ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان آسٹریلیا چلے گئے تھے تو انہیں ہی یہ ذمہ داری بھی دے دیتے کہ کرکٹ آسٹریلیا حکام سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی اور جونیئر ٹیموں سمیت دیگر اہم معاملات پر ملاقاتیں کر لیں۔ عین ممکن ہے ذاکر خان ان سے زیادہ بہتر انداز میں یہ کام کر لیتے کیونکہ وہ برسوں سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور کرکٹ آسٹریلیا کے بڑے وسیم خان کی نسبت ذاکر خان سے بات چیت کرتے ہوئے زیادہ بہتر محسوس کرتے لیکن قوم کو صبر کی تلقین کرنے والے مینجنگ ڈائریکٹر سے صبر نہ ہوا اور وہ خود چلے گئے یوں بورڈ کے خزانے پر اضافی بوجھ پڑا۔ بات صبر سے شروع ہوئی ہے تو مینجنگ ڈائریکٹر کو یہ صبر اپنے دفتر سے شروع کرنا چاہیے تھا لیکن انہیں کسی نے بتا دیا ہے کہ قوم صبر کر کے خوشی محسوس کرتی ہے سو انہوں نے ماہر سیاست دان کی طرح بہتری اور طویل المدتی منصوبوں اور بہتری کے سبز باغ دکھا کر قوم کو صبر کا سبق دیا ہے۔
جہاں تک طویل المدتی منصوبوں کی بات ہے مختصر وقت میں ان منصوبوں کی وجہ سے سینکڑوں کرکٹرز اور کرکٹ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد کو بیپناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیالکوٹ میں کرکٹ کے سامان کی صنعت سے تعلق رکھنے والی شخصیات پریشان ہیں کہ ٹیموں کی تعداد کم ہونے سے کھیل کا سامان تیار کرنے والی صنعت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ کرکٹرز کے کم ہونے کی وجہ سے سامان کی خرید و فروخت میں بھی کمی آئی ہے۔ جب کہ کرکٹرز معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ کہیں کوئی موٹر سائیکل چلا رہا ہے تو کہیں کوئی ٹیکسی چلا رہا ہے۔ برسوں ملکی کرکٹ کی خدمت کرنے والا گراؤنڈ سٹاف دربدر ہے اور انہیں اپنے مستقبل کا بھی کوئی علم نہیں ہے۔ صبر کرنے کے لیے قوم بچتی ہے اور ملک و قوم کے کرکٹرز کی محنت کی کمائی سے لاکھوں ماہانہ اور کروڑوں سالانہ صرف تنخواہ کی مد میں افسران کو جاری کر دیے جاتے ہیں۔
قوم تو بہت صابر ہے، شاکر ہے، معصوم ہے اور بھلا دیتی ہے کہ کون کیا کرتا رہا ہے اور کسے کیا کرنا چاہیے جب قوم یہ سب کچھ کر لیتی ہے تو پھر اسے کہیں تو اپنے جذبات کے اظہار کو موقع ملنا چاہیے۔ کیا قوم ٹیم کے ہارنے پر خوشی منائے یا ہر شکست پر یوم تشکر منانا شروع کر دے۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ شکست پر دنیا ختم نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو پاکستان کرکٹ بہت پہلے ختم ہو چکی ہوتی البتہ یہ حقیقت ہے شکست کے دنیا نہیں لیکن معاہدے اور ملازمتیں ضرور ختم ہوتی ہے اور ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ دنیا ختم ہو نہ ہو ہر شکست کے بعد ملازمت اور معاہدہ ختم ہونے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ مینجنگ ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم کوچز تبدیل کر دیں اور راتوں رات جیتنا شروع کر دیں۔ اگر تسلسل کامیابی کی دلیل ہے تو مکی آرتھر کو کیوں تبدیل کیا گیا اور سرفراز احمد کو ٹیم سے ڈراپ کرنے کے بعد کپتانی سے کیوں ہٹا دیا گی۔ اگر شکست کے بعد سرفراز احمد کی کپتانی ختم ہو سکتی ہے تو پھر دوہرا معیار کیوں اپنایا جا رہا ہے۔
بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ اس سیریز میں کچھ اچھی چیزیں ہوئی ہیں ہم انہیں بھول جاتے ہیں۔ بالکل اچھی چیزیں ہوئی ہیں، ڈیوڈ وارنر نے ٹرپل سینچری سکور کی، وہ مین آف دی سیریز بھی رہے، لبھوشانے رنز کرتے دکھائی دیے، مچل سٹارک، ہیزل وڈ، پیٹ کمنز اور نیتھن لیون نے بھی وکٹیں لیں تو یہ سب مثبت چیزیں ہیں لیکن آسٹریلیا اور دنیائے کرکٹ کے لیے۔ اگر پاکستان کی طرف سے کچھ مثبت ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ اس دورے کی بدولت وسیم خان کو لگ بھگ تین ہفتوں کے دورے کا موقع ملا ہے۔ وسیم خان شاید عمران خان سینئر کی پٹائی کو بھی مثبت کی عینک سے دیکھ رہے ہیں، نسیم شاہ کا ایک ٹیسٹ میچ کے بعد باہر بیٹھنا بھی مثبت پہلو ہے، موسی خان کی ناکامی اور میچ ہارنے بعد امام الحق کے گراؤنڈ میں قہقہے بھی مثبت چیزوں میں شامل ہیں۔ لیگ سپنر یاسر شاہ کو تھوک کے حساب سے رنز ہوئے اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یاسر لمبی باؤلنگ کا سٹیمنا رکھتے ہیں اسنے فٹنس کو بہت بہتر بنایا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی مشورہ دیں کہ کھلاڑیوں کے بیٹنگ آرڈر پر مداخلت کرنے کے بجائے صبر سے کام لیں۔وسیم خان کو چاہیے کہ حکمراں جماعت کی اہم شخصیات سے ضرور ملیں اور انہیں قائل کریں کہ تحمل مزاجی سے کام لیں ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے۔ ہو سکتا ہے نعیم الحق، فیصل جاوید، علی زیدی اور دیگر سیاست دان بھی صابرین کلب میں شامل ہو جائیں۔ قوم کو صبر کی تلقین کرنے سے پہلے پی سی بی غیر جمہوری آئین اور جو غیر جمہوری پلس آئین کلبوں کے لیے بنایا گیا ہے اس کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارا عمل بیصبری میں کیا گیا ہے۔ طویل المدتی منصوبوں کا بتانے والی انتظامیہ نئے آئین کو نافذ کیے ہوئے تین ماہ سے زائد وقت گذر چکا ہے لیکن تاحال ملک بھر میں کسی کلب کا کسی کو علم نہیں ہے۔ جمہوریت کے نام پر جو کھلواڑ اس آئین میں کیا گیا ہے اس پر بھی آنے والے چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ قوم کو صبر کا مشورہ دینے کے بجائے شکست کے اسباب بتائیں جائیں، سلیکشن کا معیار بتایا جائے، کوچز کی کارکردگی بتائی جائے۔ کون کیوں منتخب ہوا، کیسے کیوں نظر انداز کیا گیا یہ بتانا ضروری ہے۔ جہاں تک قوم کے صبر کا تعلق ہے قوم تو اب تک آپکی تعیناتی پر صبر کیے ہوئے ہے اور کتنا صبر کروانا چاہتے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024