بدھ ‘ 6؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 4؍ دسمبر 2019ء

مشرف کی طبیعت ناساز۔ دبئی کے امریکن ہسپتال میں داخل
جونہی عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے کا وقت قریب آتا ہے ہمارے نڈر اور بہادر حکمران ہوں یا راہنما ان کی طبیعت میں ناسازی کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو کل تک مختار کل بنے ہوتے تھے جن کو کسی کا خوف نہیں ہوتا تھا۔ یکدم راج سنگھاسن سے جدا ہوتے ہی مٹی کے مادھو بن جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی ملک ہے جس پر وہ حکمرانی کرتے تھے۔ جس کے مالک بن کر وہ یہاں حکومت کرتے تھے۔ اپنوں سے ڈر کاہے کا جب سارا ملک ہی اپنا ہے تو یہاں کی عدالتیں عوام اور ادارے کب سے غیر ہونے لگے۔ مشرف صاحب عرصہ ہوا مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں۔ مگر کوئی ادارہ یاحکومت ا نہیں اپنے روبرو پیش کرنے پر قادر نہیں۔ وہ بیرون ملک رہ رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے یہ لوگ حکومت پاکستان پر کرتے ہیں اور باقی زندگی باہر گزارنا پسند کرتے ہیں۔ اب عدالت نے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد ان کے کیس کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ بار بار طلب کرنے پر بھی مشرف نہیں آتے اس لئے انہیں حتمی مہلت دے رہے ہیں ورنہ انکی غیر موجودگی میں فیصلہ ہو گا۔ اس پر بجائے اسکے کہ عدا لتی حکم بجا لایا جاتا‘ موصوف پھر بیمار پڑ گئے ہیں بیمار بھی ایسے کہ انہیں فوری طور پر امریکن ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ اب کوئی کیا کر سکتا ہے۔ ان کا وکیل جانے اور عدالت۔ عوام تو اس طرح کے تماشے دیکھنے کے عادی ہیں۔ خدا انہیں جلد صحت یاب کرے تاکہ وہ فیصلہ کریں کہ انہوں نے پاکستان کہ عدالتوں کا سامنا کرنا ہے یا باہر ہی رہنا۔ اس طرح عدالت کو بھی فیصلہ سنانے میں آسانی رہے گی۔
٭٭٭٭٭
ملکہ برطانیہ کے انتقال کی افوائیں
ملکہ برطانیہ دنیا میں سب سے طویل عرصہ حکومت کرنے والے بادشاہوں کی فہرست میں کب کی جگہ بنا چکی ہیں۔ اب تو لگتا ہے وہ اسی طرح جیتی رہیں تو شاید دنیا کی سب سے طویل بادشاہت کرنے کا اعزاز بھی ان کے سر سجے گا۔ جس طرح کوہ نور ہیرا ان کے تاج پر سجا ہوا ہے۔ اب نجانے یہ کون سے حاسدین ہیں جو وقفے وقفے سے ان کے انتقال کی خبر چلا کر اپنا دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔ نجانے کیوں ملکہ برطانیہ کا وجود ان کے دل میں اور آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔ برطانوی عوام تو اپنی طویل العمر ملکہ کی طویل حکمرانی سے بہت خوش ہیں۔ اسے مادر مہرباں قرار دیتے ہیں۔ اس عمر میں تو خواتین آرام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں بشرطیکہ انہیں اتنی طویل عمر نصیب ہو۔ ورنہ اکثر بیماری اور بڑھاپے کی اذیتیں سہتی ہیں۔ مگر ملکہ برطانیہ کو دیکھ لیں اسی طرح چاق و چوبند نظر آتی ہیں۔ بڑھاپا ان کے جسم پر طاری ہے مگر ان کے حوصلے اور امنگیں جوان ہیں۔ گزشتہ روز کی افواہ میں ہارٹ اٹیک سے ان کے مرنے کی خبر پر ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ ملکہ مکمل تندرست ہیں اور شاہی محل میں نیٹو سربراہان کو استقبالیہ دے رہی ہیں۔ اس میں صدر امریکہ ٹرمپ بھی شریک ہوں گے۔ بھلا کوئی بیمار ایسی اہم تقریبات میں شریک ہو سکتا ہے۔ یہ تو زندہ لوگوں کے مشاغل ہیں۔ سو ملکہ برطانیہ ابھی زندہ ہیں، ان کے انتقال کی افواہیں پھیلانے والوں کو ابھی کچھ عرصہ اور اپنی ناکام حسرتوں پر آنسو بہانے ہوں گے۔
بھارت کو پھر سبکی۔ اگنی ون اور ٹو کے بعد تھری کا تجربہ بھی ناکام
بھاری ایٹمی ہتھیار لے کر جانے والا یہ میزائل جسے بھارت نے اگنی تھری کا نام دیا تھا اس کی حسرتوں پر اوس ڈال کر ناکامی کے اندھیرے میں گم ہو گیا۔ اس سے بھارت کی میزائل ساز صنعت کی قابلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جتنا روز بھارت والے دیوالی پر ہوائیاں اڑانے اور پٹاخے چھوڑنے پر اور بنانے پر لگاتے ہیں اگر اس کا آدھا بھی اصلی ہوائی یعنی میزائل سازی کے میدان میں لگایا ہوتا تو آج انہیں یہ د ن نہ دیکھنا پڑتا۔ بھارت کی اصل میزائل سازی کا زور مہارت اور کمال ان کی دیوالی پر بنائی گئی شُرلیوں اور ہوائیوں میں نظر آتا ہے وہ اسی طرح توجہ دے تو زیادہ اچھا ہے۔ ورنہ اگنی ون اور ٹو کی ناکامی کے بعد تھری کا تجربہ بھی ثابت ہونا بتا رہا ہے کہ بھارتی حکمران اب ایسے خطرناک تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے تجربہ سے باز رہیں تو بہتر ہے۔ کہیں کوئی میزائل راہ بھول کر یا بھٹک کر بھارت میں ہی کسی شہر کو نشانہ بنا گیا تو پھر کیا ہو گا۔ یہی حال بھارتی خلائی مشن چندریان کا بھی ہوا ہے جو چاند پر پہنچنے سے پہلے ہی فنا کے گھاٹ اُتر گیا اور اس کے ٹکڑے چاند کی سطح پربھارتی سائنس دانوں کے آنسوئوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ بھارت کے حکمران یوں پیسہ ضائع کرنے کی بجائے اگر عوام پر لگائیں تو بھارت میں خوشحالی آ سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
طلبہ کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لی جائے۔ فواد چودھری
خدا خیر کرے نجانے کیوں فواد چودھری کو آج کل طلبہ پر بہت پیار آ رہا ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں طلبہ یونینز کی بحالی کے نام پر ایک مظاہرہ اور جلسہ ہوا۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔اس مظاہرے میں طلبہ کی آڑ میں ایسی قوتیں بھی سرگرم تھیں جو ریاست اور دفاع سے متعلق اپنی منفی سوچ کی وجہ سے بدنام ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اپنی زہر اُگلتی زبانوں کی وجہ سے سیاسی میدان میں محب وطن افراد کے ہاتھوں پٹ چکے ہیں۔ اب وہ جہاں موقع ملتا ہے سر نکال کر اپنی اپنی زبانوں سے گند اگلتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی طلبہ یونینز کی بحالی اور طلبہ کے مسائل کے حل کی یہ لوگ وہاں ریاست اور فوج کے خلاف اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگے۔ ایسے میں اچانک لبرل ازم کے نام پر کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر بھی …؎
یہ لال رنگ کب مجھے چھوڑے گا
تیرا غم کب تلک میرا دل توڑے گا
کہتے ہوئے اپنی ناکام حسرتوں کا سیاپا کرنے لگے۔ طلبہ میں دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش ہر جگہ پائی جاتی ہے مگر سیاسی مداخلت اور اس میں انتہا پسندی ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہی کچھ گزشتہ روز کے مظاہرے میں سامنے آیا۔ ایسے عناصر کو بروقت لگام نہ ڈالی تو پی ٹی ایم جیسی جماعتیں طلبہ کی آڑ میں نیا فتنہ اُٹھا سکتی ہیں۔ جس کے جواب میں مذہبی تنظیمیں بھی مورچہ سنبھال لیں گی۔ پھر کیا ہو گا۔ اس وقت میانہ روی کی ضرورت ہے۔ سبز اور سرخ کی جنگ کی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے فواد چودھری حکومت کے وزیر نہیں اداروں کے دشمن لوگوں کے وکیل ہیں جبھی تو ان کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا کہہ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭