آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ ماہرین کی نظر میں
اس کالم کیلئے آئین و قانون کے ماہرین اوردفاعی تبصرہ نگاروں سے مشاورت کی گئی ہے- پاکستان کے نامور ایڈووکیٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے 2012 میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جسے سنگل اور ڈبل بینج دونوں نے اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل نمبر 199 کی شق نمبر 3 عدلیہ کو پاک فوج کے کسی آفیسر کی ملازمت شرائط یا اس ضمن میں پیدا ہونے والے معاملے کی سماعت کا اختیار نہیں دیتا-پاکستان کے موجودہ نیک نام اور محترم چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ بھی اسی آرٹیکل کے تحت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں پٹیشن کو مسترد سکتے تھے مگر انہوں نے اس پٹیشن کو قابل سماعت قرار دے کر حکومتی نوٹیفکیشن کو معطل کر کے آرمی چیف کو بھی نوٹس جاری کر دیا جو پٹیشن کے مطابق فریق بھی نہیں تھے- جنرل قمر جاوید باجوہ بے مثال قومی خدمات کی وجہ سے نہ صرف پاکستان میں پاپولر ہیں بلکہ ان کو دنیا کے اہم ملکوں میں بھی پزیرائی حاصل ہے-چیف جسٹس پاکستان کے اس دلیرانہ اقدام کے بعد پاکستان میں ہیجانی صورتحال پیدا ہوگئی کیونکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں صرف تین روز باقی رہ گئے تھے- پاکستان کے نامور بیرسٹر اعتزاز احسن نے بیان جاری کیا کہ آرمی چیف کی نامزدگی اور ملازمت کی شرائط کے بارے میں وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کو کو مکمل آئینی اختیار حاصل ہے- بیرسٹر اعتزاز احسن نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کے خلاف "جوڈیشیل کو "ہو گیا ہے اور پاک فوج کی جانب سے کاؤنٹر کو کے امکانات موجود ہیں- جنرل قمر جاوید باجوہ نے سماعت کے دوران وقار کا مظاہرہ کیا-
غیر جانب دار سینئر آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق آرمی چیف کی توسیع کے خلاف پٹیشن کو قابل سماعت قرار دینے کے بعد عدلیہ کے پاس دو آئینی اور قانونی آپشن تھے- پیٹیشن کو منظور کر لیا جاتا یا مسترد کر دیا جاتا مگر عدلیہ نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کر کے اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ساتھ مشروط کر دیا- آئینی ماہرین کے مطابق جب آئین اور قانون میں توسیع کی گنجائش ہی نہ تھی تو عدلیہ کو یہ اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہوگیا - عدلیہ نے اپنے فیصلے کو Judicial restraint یعنی عدلیہ کی تحمل اور بردباری قرار دیا جبکہ آئینی ماہرین کے مطابق عدلیہ نے ایک بار پھر عدالتی تاریخ میں دفن" نظریہ ضرورت" کو زندہ کردیا ہے-اس ہائی پروفائل مقدمے کی سماعت اگر ان کیمرہ کی جاتی تو قومی سلامتی اور دفاع کے ادارے کا وقار مجروح نہ ہوتا اور بھارت کو مزموم پراپیگنڈے کا موقع نہ ملتا- مگر عدلیہ نے اس کیس کی اوپن کورٹ میں سماعت کا فیصلہ کیا-ایک سینئر آئینی ماہر کے مطابق مناسب یہ تھا کہ عدلیہ حکومت کو آرمی چیف کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کا آرڈیننس جاری کرنے کی ہدایت کرتی جسے بعد میں پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جاتا-آئین اور قانون کی معیاری اور اور معروف کتب کے مصنف اور سینئر ریٹائرڈ جسٹس کی پختہ رائے ہے کہ آئین کے آرٹیکل نمبر 243 کی شق نمبر4 کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی اور توسیع صدر پاکستان اور وزیر اعظم کا قطعی اور کلی اختیار ہے - اختیارات کی تقسیم کے اصول کے تحت پارلیمنٹ اس میں مداخلت نہیں کرسکتی-
پاکستان میں "شہرت کا نشہ " بڑی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے- اس نشے کے تحت بااختیار افراد ایسے اقدامات اٹھا لیتے ہیں جن کا خمیازہ آخرکار عوام اور ریاستی اداروں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا دور یاد آتا ہے - جس طرح ماضی کے ججوں کے طعنے موجودہ ججوں کو نہیں دیے جا سکتے اسی طرح سابق آمر جرنیلوں کے اقدامات کا غصہ حاضر سروس جرنیلوں پر نہیں نکالا جا سکتا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے…؎
کوئی نشہ ہو ٹوٹ جاتا ہے
کب تلک خود کو بے خبر رکھیے
حساس اور ہائی پروفائل مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت کی نااہلی اور بد انتظامی اس قدر افسوسناک تھی کہ عدلیہ کے ججوں نے ریمارکس دیئے کہ وزارت قانون کے ذمہ داران کی ڈگریاں چیک کرنی چاہیں- افسوس حکومت عدلیہ کی سرزنش کے باوجود اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہے بقول غالب…؎
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
وزیراعظم پاکستان رائے عامہ کے برعکس چل رہے ہیں- انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری دفاع اور قانون کے سیکریٹری اور سیکریٹری صدر پاکستان کو تنبیہ کرنا بھی مناسب نھیں سمجھا بلکہ حکومتی نا اہلی کی ذمے داری پاکستانی مافیا اور بھارت پر ڈال دی- انہیں حکومت کی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے -
آئین اور قانون کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ایس ایم ظفر کا خیال ہے کہ آرمی چیف کی توسیع کی عدالتی سکروٹنی کے بعد سول ملٹری تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہو جائیں گے- باخبر دفاعی ماہرین اور سینئر ریٹائرڈ جسٹس کی رائے میں حکومت کمزور ہوئی ہے- اس کی نااہلی سے قومی سلامتی کے ادارے پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں- پاک فوج کے سپہ سالار کی توسیع کے مسئلے کو جس طرح مس ہینڈل کیا گیا اس کی وجہ سے فوج میں اضطراب پیدا ہوا ہے جو حکومت کے لیے سازگار نہیں ہے- اگر وزیراعظم ذمہ داروں کے خلاف انضباطی کاروائی کرتے تو پاک فوج کا اضطراب کم ہو جاتا -عدلیہ نے گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں پھینک دی ہے - قوم دیکھ رہی ہے کہ پارلیمنٹ اس امتحان اور آزمائش میں کس طرح سرخرو ہوتی ہے- اپوزیشن اگر سیاسی بلوغت بصیرت اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرے تو باوقار انداز سے متفقہ طور پر ایسی قانون سازی کر سکتی ہے جو ریاست اور ریاستی اداروں کے مفاد میں ہو - وزیراعظم اور وزراء آرمی چیف کی توسیع کے سلسلے میں بیان بازی سے گریز کریں تاکہ اپوزیشن مشتعل نہ ہو-ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے- اگر عسکری امور کو بحث و مباحثہ کا موضوع بنایا گیا تو اس سے پاکستان دشمن بیرونی قوتوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے جو پاک فوج کو کمزور کرنے اور اس کے خلاف بد اعتمادی پیدا کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں- پارلیمنٹ پاک فوج کے جرنیلوں کی ملازمت کے بارے میں قانون سازی ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر کرے تاکہ پاکستان کا دفاع مضبوط اور مستحکم رہے اور پاک فوج کی کمانڈ پورے اعتماد جزبے اور عزم کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر سکے- اگر سیاسی جماعتوں نے اس اہم اور نازک مسئلہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا بلیک میلنگ کی کوشش کی تو جمہوری نظام عدم استحکام کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔