مضبوط معیشت کے ثمرات
بڑی مدت بعد بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کی ایک یلغار سی نظر آئی۔ پاکستان میں مارشل لاء بھی لگے‘ لیکن یحییٰ خان کے سوا کسی بھی فوجی دور میں بیورو کریسی کوبے رحمی سے نہیں چھیڑا گیا۔ ایوب خان کا مارشل لاء منافع خوروں‘ ذخیرہ اندوزوں‘ جرائم پیشہ عناصر اور بیورو کریسی کیلئے سخت وعید کی صورت میں سامنے آیا۔ سب کے راتوں رات قبلے درست ہو گئے۔ یحییٰ خان نے تین سو سے زائد بڑے افسران کو بیک جنبش قلم برطرف کر دیا،ان کو کرپشن میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔ان میں اس دور کے عاشق مزاج شاعر ڈپٹی کمشنر مصطفیٰ زیدی بھی شامل تھے جن کا یہ شعر آج بھی زبان زد عام ہے ۔ …؎
انہیں پتھروں پے چل کے اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
یحیٰ کے کڑے احتساب سے بقیۃ القلم بیورو کریسی اور سر پھرے سرکاری ملازمین پر دہشت طاری ہو گئی۔ بھٹو صاحب نے بھی یحییٰ خان کے بعد بڑے افسروں پر شب خون مارا تاہم ان کی تعداد یحییٰ خان کے احتساب کی بھینٹ پڑھے افسران و اعلیٰ عہدیداران کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھی۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی ادوار میں ایوب خان اور یحییٰ خان دور والی دہشت کام کر گئی ۔ مشرف دور میں تو کوئی ماضی کے فوجی حکمرانوں جیسی سختی نہیں تھی۔ مشرف کی آمریت کیخلاف سینہ سپر ہونے کے دعویدار اس وقت منظرعام پر آئے جب اس دور کے مارشل لاء کے ملائی جیسا نرم اور بے آنچ ہونے کا یقین ہو گیا ورنہ تو چوری کھانے والے مِٹھو کوڑے کھانے کی کہاں تاب رکھتے ہیں۔ یہ طرہ امتیاز صرف پیپلزپارٹی کے جیالوں کو حاصل رہا ہے۔تحریک انصاف حکومت کرپشن کے خاتمے کے عزم اور احتساب کے اٹل ارادے کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ پی پی پی اور ن لیگ تیس سال سے بھی زائد عرصہ سے کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہی ہیں۔ درمیان میں مشرف کا ساڑھے آٹھ سال کا دور بھی آیا، مشرف کے ساتھ بھی انہی پارٹیوں کے لوگ آن ملے تھے۔ مشرف کے اقتدار سے دوری کے بعد یہ پنچھی پھر اپنی کمین گاہوں میں چلے گئے۔ تیس سال میں جہاں دونوں پارٹیوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملا‘ وہیں ان کے ادوار میں لائے گئے اکثر بیورو کریٹس کی وفاداریاں ریاست سے زیادہ لیڈرشپ کی ذات سے وابستہ ہو گئیں۔ دونوں پارٹیاں سیاسی اختلافات کے باعث دو انتہائوں پر رہی تھیں‘ تاہم اب حکومت کے کڑے احتساب کے بے رحم کوڑے نے دونوں کے درمیان دوریاں دور کرکے ایک دوسرے پر فریفتگی کے جذبات پیدا کر دیئے۔ آج ان میں مثالی ایکتا نظر آتی ہے ۔ انکے ادوار کے لگائے بیورو کریٹس میں سے کئی احتساب کی زد میں آئے اور بہت سوں کے گرد سرخ دائرہ کھنچ چکا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ عمران خان کئی بار بیورو کریسی کی جانب سے ساتھ نہ دینے کا گلہ کر چکے ہیں۔ کئی سرکاری ملازمین جن کی دو نمبر کی کمائی بند ہوئی‘ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔ لوگ ان سے شکوہ کرتے تو طنزاً کہتے جائو تبدیلی سرکار کے پاس جائو اس سے کام کرائو۔ ایسے پُر غرور سروں کا علاج تو وہی ہے جو یحییٰ خان اور بھٹو نے کیا تھا‘ تاہم عمران خان نے محض تبادلوں پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے بھی ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ دوسری صورت میں اگلا آپشن بروئے کار آسکتا ہے۔حکومت بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہے اور کر بھی رہی ہے۔مگر رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، سازشیں کی جاتی ہیں۔ کبھی سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ جاتی ہے کبھی سپیکر کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ پورا زور پروڈکشن آرڈرز اور ضمانتوں پر رہتا ہے۔ حکومت کے خلاف مولانا کو آگے بڑھایا جاتا ہے کبھی عدلیہ کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مولانا کے احتجاج سے پوری طرح سے ہوا نکل چکی ہے۔مگر وہ حکومت گرانے پر مصر ہیں۔ عدلیہ کے ذریعے بحران پیدا کرنے کی کوشش بھی خاک میں مل گئی۔ آرمی چیف کی توسیع کواچھالا گیا۔ سپریم کورٹ کی دانشمندی اور حکومت کی بہترین حکمت عملی سے یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ حکومت کو تسلی سے کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو یہ اپنے اکثر وعدوں کی تکمیل کر چکی ہوتی اور باقی پایۂ تکمیل کے قریب ہوتے ۔ عالمی وقومی نامسائد حالات کے باوجود آج خوشگوار ہوا کے جھونکے چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ معیشت مضبوط ہورہی ہے عوام کو ریلیف ملتا دکھائی دے رہا ہے۔سٹاک مارکیٹ متواتر اوپر جارہی ہے۔ا پوزیشن ذاتی مفادات کو تج کر قومی مفادات پر حکومت کا ساتھ دے تو عوام کے بہت سے مسائل یقینا حل ہو سکتے ہیں۔معیشت کی مضبوطی کے ثمرات عوام تک پہنچنے کی ابتدا ہوگئی ہے۔ پنجاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں سے بھی بہترین گورننس کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ عوام کو بڑی حد تک ریلیف ملنے کی یقین کی حد تک امید کی جاسکتی ہے۔ایسے میں حکومت کو گورننس پر توجہ مرکوز کرنے کیساتھ اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ اداروں میں عدم ٹکراؤکی حکومتی پالیسی قابل تحسین ہے۔ حکومت کو مرکز اور پنجاب میں بھرپور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔سازشی عناصر حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے اسکے اداروں کیساتھ اختلافات پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے بھی سرگرداں ہیں حکومت کو اس حوالے سے خبردار رہنا ہوگا۔
گزشتہ دنوں عدلیہ میں ججوں کی تقرری کیلئے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میںقواعد و ضوابط کی منظوری دی گئی۔ نئے قواعد و ضوابط کے تحت ججز کی تقرری نامزد امیداوار کے انٹرویو کے ذریعے ہوا کرے گی اس غرض سے پارلیمانی کمیٹی کسی بھی شخص کو مدعو کر کے انٹرویو کرنے کی مجاز ہو گی۔ اگر مذکورہ شخص انٹرویو کیلئے دستیاب نہ ہوا تو اس کی نامزدگی مسترد تصور کی جائیگی۔ایسے معاملات میں بڑی فراست اور سوچ بچار کیساتھ پیشرفت کی ضرورت ہوتی ہے۔عدلیہ کو اعتماد میں لئے بغیر ایساکیا گیا تو یہ سب حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے۔حکومت کواپنی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے ۔ سردست ایسے کٹے کھولنے سے گریز کرے جو اسی ہی سینگوں پر اٹھالیں۔