\\\"Steep debt, slow growth, and high spending kill empires - and America could be next.\\\"
یعنی بڑے بڑے قرضے، دھیمی رفتار والی معاشی ترقی اور حد سے زیادہ کے اخراجات بڑی بڑی سلطنتوں کو قبرستان تک لے جاتے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ اس سفر کیلئے اب باری امریکہ کی ہے۔ امریکی صدر اوباما سے اہل امریکہ اور ساری دنیا کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور سوچا یہ جا رہا تھا کہ ابراہام لنکن کے بعد اوباما پہلا صدر ہو گا جو امریکہ کیلئے کچھ کر گذرے گا لیکن اب آثار یہ نظر آ رہے ہیں کہ اب تک کی اوباما کی کارکردگی سے اہل امریکہ اور نہ اہل دنیا مطمئن نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے نیوز ویک رسالے کی امریکی صدر اوباما کی کارکردگی سے متعلق ایک کور سٹوری کا عنوان تھا :
\\\"Yes he can (but he sure hasn\\\'t yet\\\".
قارئین کو یاد ہوگا کہ ’’جی ہاں ہم کر سکتے ہیں‘‘ والا وہ مشہور جملہ ہے جو اوباما اپنی صدارتی انتخاب کی مہم میں اکثر کہا کرتا تھا اس لیے نیوز ویک نے طنزاً لکھا کہ ’’جی ہاں وہ کر سکتا ہے لیکن ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا‘‘ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر اوباما اگر امریکہ کی قومی ہیلتھ انشورنس کا بل ہی پاس کروا لے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی چونکہ پچھلے ساٹھ سالوں میں ہیری ٹرومین، جانسن، جمی کارٹر اور بل کلنٹن سمیت چار صدور یہ کام کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ بے انتہا قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اب بھی یہ کام مشکل نظر آ رہا ہے چونکہ صدر اوباما نے یکم دسمبر کو افغان پالیسی پر کی جانے والی تقریر میں بھی خود کہا ہے کہ اب تک عراق ۔ افغانستان جنگوں پر امریکہ کے ایک کھرب ڈالر یا 85 کھرب روپے خرچ ہو چکے ہیں اور اب افغانستان جنگ پر بھی تقریباً 30 ارب ڈالر سالانہ خرچ ہے۔
قارئین اس گھمبیر صورتحال کے باوجود افغانستان میں 30 ہزار مزید فوجیوں کو بھیجنے کا فیصلہ یقینا امریکہ کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ کریگا اور ساتھ یہ بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ امریکہ کی ایک لاکھ فوج بھی افغانستان جیسے ملک کو فتح نہیں کر سکتی اور نہ ایسی مستحکم حکومت افغانستان میں چھوڑ سکتی ہے جو اکثریتی پشتون آبادی اور انکے جنگجوؤں کا مقابلہ کر سکے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اوباما کی تقریر کے منفی اور مثبت پہلو کیا ہیں:۔
٭اوباما نے اپنی تقریر 9/11 کے واقع سے شروع کی لیکن یہ بتانے سے پہلو کترا گئے کہ 9/11 کے اسباب کیا تھے اور آج آٹھ سال کی ناکام فوجی کارروائی کے بعد ہم 9/11 کے محرکات کا ایک حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیوں نہیں کرنا چاہتے ۔ القاعدہ جیسی کوئی تنظیم اگر دنیا میں ہے تو اس نے کیوں اور کیسے جنم لیا اسکے مقاصد کیا ہیں۔ اگر اس کے جنم لینے کی وجوہات مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں اور عرب ممالک پر اسرائیل کے مظالم ہیں جس میں اسرائیل کے شطیلہ اور صابرہ کے مہاجرین کیمپوں میں نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا سفاکانہ قتل شامل ہے یا اسکی وجہ کشمیر میں 90 ہزار بے گناہ کشمیریوں کی شہادتیں ہیں تو ان وجوہات کے خاتمے کیلئے کچھ کرنا کیوں ضروری نہیں اور اگر کچھ کرنا ضروری ہے تو امریکہ اب تک کیا کرتا رہا ہے۔ دہشتگردی کے درخت کو آپ تنے سے کاٹ بھی دیں اور جڑوں تک نہ پہنچیں تو یہ مسئلے کا عارضی حل ہی ہو گا ۔
٭افغانستان میں 30 ہزار فوج کے اضافے سے اوباما دراصل ایک Failure کو re-inforce کر رہے ہیں جو عسکری اصولوں کیخلاف ہے یہ فوج افغانستان فتح کر سکتی ہے نہ کرزئی نام کے روبوٹ میں جان ڈال سکتی ہے
٭اوباما نے خود کہا ہے کہ مسائل کے حل کیلئے فوج کے استعمال میں ہمیں احتیاط برتنی چاہیے ۔ اوباما نے کہا:۔ \\\"We can\\\'t count on military power alone\\\"
اس لیے اس میں شک نہیں کہ افغانستان میں مزید فوج بھیجنا ایک Tactical عمل ہے حالانکہ اب ضرورت سٹریٹیجک عمل کی تھی‘ یعنی غیر فوجی ، سیاسی اور سفارتی سطح پر مسئلے کو حل کرنے کا سوچا جائے جس میں خطے کے ممالک خصوصاً چین، روس، ایران، پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔
٭صدر اوباما نے کہا کہ ویت نام میں ہم اکیلے تھے اب افغانستان میں ہمارے ساتھ NATO کے اتحادی بھی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ فرانس ، ہالینڈ، کنیڈا، وغیرہ کے ممالک NATO اتحادی اور انگلینڈ اور امریکی عوام اس جنگ کے حق میں نہیں۔
٭اوباما نے کہا کہ حالات کو جوں کا توں چھوڑنا ہمارے لیے مہنگا ہے لیکن یہ بات نہ سوچی کہ 30 ہزار مزید فوج بھیج کر بھی اگر حالات جوں کے توں رہے تو یہ سودا اور بھی زیادہ مہنگا ہو گا۔
٭جو جنگ آٹھ سال میں نہ جیتی جا سکی وہ 18 ماہ میں کیسے جیتی جا سکے گی لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے صدر نے کہا ہے کہ القاعدہ پاکستان میں موجود ہے اور اگر پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اسکے ہاتھ لگ گئے تو وہ اسکے استعمال سے بھی دریغ نہیں کریگی ساتھ ہی اوباما نے کہا: ـ\\\"Tools of mass destruction will have to be eliminated\\\".
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان 18 ماہ میں امریکہ کا اہم ہدف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ ہی ہو گا‘ اس لیے حکومت پاکستان اور ہمارے سیکورٹی اداروں کو اور چوکنا ہونا پڑیگا۔
٭صدر اوباما جن فوجیوں سے مخاطب تھے ان سب کے چہرے اترے ہوئے تھے چونکہ اس جنگ کی Cause پر ان فوجیوں کا ایمان متزلزل نظر آ رہا تھا۔ اس لیے یہ فوجی جن سے اوباما مخاطب تھے، کے اندر \\\"Will to Fight\\\" نام کی کوئی چیزنہیں یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی خود کشیوں کے واقعات جو 2007 میں 28 تھے اب اور زیادہ بڑھ گئے ہیں اور انکے ایک میجر نے تو امریکہ میں ہی اپنے 13 ساتھیوں کو بھون ڈالا۔ لڑنے کے جوش کے ایسے فقدانکے ساتھ اٹھارہ ماہ میں یہ 30 ہزار فوجی اس سر زمین پر کیا کارکردگی دکھائیں گے جس کو مورخ بڑی بڑی طاقتوں کا قبرستان کہتے ہیں۔
قارئین اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی کے دباؤ ، میڈیا کے مثبت کردار، ہیلری کلنٹن کے حالیہ دورے میں انکو سنائی گئی کھری کھری باتیں اور کیری لوگر بل پر فوج سمیت پوری قوم کے اظہار نفرت کا ایک مثبت اثر یہ ہوا کہ اوباما نے پاکستان کا نام رعونت سے نہیں لیا بلکہ اس نے پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کی بات کی اور کہا:۔
\\\"Our extended strategic partnership will continue even when guns become silent\\\".
یعنی جنگ کے خاتمے کے بعد بھی پاکستان کیساتھ ہمارے بڑے پیمانے پر معنی خیز رابطے جاری رہینگے۔
قارئین چونکہ ہم ماضی میں کئی بار امریکہ کی بے اعتنائیوں کا شکار ہوئے ہیں اس لیے ہمیں اس کا یقین تب ہی آئیگا جب امریکہ کچھ کر کے دکھائے گا ۔ امریکہ کیساتھ اچھے تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں لیکن امریکہ کو پاکستان کیلئے ناگزیر سمجھ کر اپنی غیرت کا سودا کرنا ملکی مفادات کیخلاف ہے ۔ علامہ اقبال کے ان اشعار کیساتھ اجازت چاہوں گا:۔
نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں!
فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن
قدم اٹھا ! یہ مقام انتہائے راہ نہیں !