جمعرات ، 5 محرم الحرام، 1444ھ، 4اگست 2022 ء

بیوروکریسی میں خوشی کی لہر، تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ اکائونٹس میں پہنچ گیا
جی خوشی تو ہونی ہے ان مراعات یافتہ لوگوں کو جن کی تنخواہ میں 10 یا 15 فیصد نہیں یکمشت 150 فیصد جو اضافہ ہوا تھا وہ ان کے اکائونٹس میں آ گیا ہے۔ اب تو ان کی مرضی ہے وہ اڈی اڈی جائیں یا رج دھمالاں پائیں۔ یہ شاہی اضافہ ان کے ایگزیکٹو الائونس میں کیا گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ غریبوں کو تو یہ سب مایا ہے کہہ کر صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ پیسے کی فراوانی پر عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور خود یہ مراعات یافتہ طبقے روپے پیسے میں کھیل رہے ہوتے ہیں اور ہل من مزید کا نعرہ ان کے لبوں پر رہتا ہے۔ سچ کہتے ہیں بھیا کہ پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو غریب سرکاری ملازمین کی تنخواہ جو پہلے ہی کم ہوتی ہے میں کبھی 100 فیصد اضافہ کسی غربت الائونس کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوا جبکہ بھاری تنخواہ لینے والے بیوروکریٹس جن کے پہلے ہی موج میلے لگے رہتے ہیں۔ ان کو مزید مزے لینے کے لیے ان کے خودساختہ الائونس تیار کرکے ان کو مزید نوازا جاتا ہے۔ یوں ان کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں رہتا ہے۔ یہ کرتے کیا ہیں۔ کسی عام آدمی سے پوچھ لیں وہ ایسی وضاحت کرے گا کہ سوال پوچھنے والے کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔ یہ اس وقت ملک کی جو حالت ہے وہ انہی بیوروکریٹس کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ان میں سے اکثر و بیشتر کو ملک کی نہیں اپنی پڑی رہتی ہے اور وہ اسی غم میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔ اسی لیے انہیں کئی لوگ ’’برا کریسی‘‘ بھی کہتے ہیں جو اکثریت پر فٹ بیٹھتا ہے۔ ان کے بچے باہر پڑھتے اور رہتے ہیں۔ اکائونٹ بھی وہاں ہوتے ہیں۔ کئی کے گھر بھی ہیں اور ان کا ذریعہ آمدن پاکستان کے قومی خزانے میں لوٹ مار ہوتا ہے۔
٭٭٭٭
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گیسٹرو اور ہیضہ پھیلنے لگا
کہتے ہیں مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی اپنے ساتھ اور بھی بے شمار مسائل لاتی ہے۔ اب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہی دیکھ لیں جہاں سیلاب نے کیا کم آفت مچائی تھی۔ انسان ، جانور ، گھر ، سڑکیں ، پل سب کچھ سیلاب بلاخیز کے ریلوں میں یوں بہہ گئے کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ خدا خدا کر کے ابر چھٹا بارش تھمی تو متاثرین کے جان میں جان آئی۔ مگر اب بلوچستان اور پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں ایک سے بڑھ کر ایک نئی مصیبت سر اٹھانے لگی ہے۔ خوراک اور ادویات کی قلت تو پہلے ہی تھی اس پر قابو پانے کے لیے حکومتی و نجی فلاحی ادارے اور فوجی جوان بھرپور کوشش کر رہے ہیں مگر یہ جو وبائی امراض ہیں ان کا کیا کیا جائے۔ ان سے بچائو کی کوئی صورت نہیں نکل پا رہی۔ اب سیلاب کا زور کم ہوا تو متاثرہ علاقوں میں ہیضہ اور گیسٹرو پھیل رہا ہے جس کا سب سے زیادہ شکار بچے ہو رہے ہیں ہزاروں بچے بیمار پڑے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں فوجی اور دیگر میڈیکل کیمپوں میں ڈاکٹر اور نرسیں دن رات ان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ایسے میں اگر مخیر حضرات بھی آگے بڑھیں میڈیکل کیمپ لگائیں، دوا ساز ادارے مفت ادویات کا عطیہ دیں تو صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ا س وقت پنجاب اور بلوچستان میں ہیضے اور گیسٹرو میں مبتلا مرد و خواتین بچوں اور بوڑھوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ حکومت اس طرف خصوصی توجہ دے تاکہ وبائی امراض پر قابو پایا جا سکے اور متاثرین سیلاب کی مشکلات میں کمی آئے۔
٭٭٭٭
عمران خان کی مشاورت سے پنجاب کابینہ کی تشکیل
درون خانہ خبررکھنے والے بتاتے ہیں کہ خان صاحب نے اپنے مرضی کے بندے رکھنے کے بعد ازراہ مروت وزیر اعلیٰ پنجاب سے بھی کہا ہے کہ ان کی بنائی کابینہ میں یعنی ان کے منظو شدہ وزیروں میں اگر پرویز الٰہی چاہیں تو اپنے بھی کسی بندے کو شامل کر سکتے ہیں جس پر شنید میں ہے کہ ق لیگ کا ایک عدد وزیر پنجاب کی کابینہ میں شامل ہو گا۔ باقی سب وزرا کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ق لیگ کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی اصل اقتدار پی ٹی آئی کا ہو گا۔ یوں عثمان بزدار کے بعد عمران خان کو ایک اور مؤدب وزیر اعلیٰ مل گیا ہے۔ یقین نہ آئے تو گزشتہ روز کی تصاویر ہی دیکھ لیں۔ عمران خان چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کے لیے آئے تو وزیر اعلیٰ کی نشست پر براجمان ہوئے حالانکہ نہ وہ وزیر اعظم ہیں نہ ایم این اے صرف پی ٹی آئی کے چیئرمین یعنی سربراہ ہیں جبکہ ان کے سامنے میز کے دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور ان کے فرزند مونس الٰہی بیٹھے ہیں۔ اس تصویر پر اپوزیشن پی ڈی ایم والے شور کر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کی نشست پر کوئی دوسرا نہیں بیٹھ سکتا ۔ اب دوسرے سے کیا مراد ہے شاید اپوزیشن والوں کو علم نہیں کہ ق لیگ والے پی ٹی آئی والے ساتھ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ والی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ جہاں انا مٹ جاتی ہے۔ اب پرویز الٰہی کو ووٹ دینے والے ق لیگ کے وہ ارکان کیا کریں گے جنہیں وزیر اور مشیر بننے کا خواب دکھایا گیا تھا۔ وہ بے چارے کوتو وڈھے چودھری چیئرمین ق لیگ شجاعت حسین کی بات نہ مان کر تین میں رہے نہ تیرہ میں۔
٭٭٭٭
فکسڈ ٹیکس کے خلاف تاجروں کا لاہور سمیت کئی شہروں میں احتجاج
ابھی تو صرف بجلی بلوں پر فکسڈ ٹیکس عائد ہوا ہے تو یہ شور مچا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی عام دکان میں بھی جو ہزار ہزار پاور کے کئی بلب جل رہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ دکاندار صرف چند ہزار بجلی بل جمع کراتے ہیں۔ اس پر کبھی تاجر برادری شکرانے کے نوافل ادا کرتی نظر نہیں آتی۔ کسی بھی شہر کی کسی ایک مارکیٹ میں بلوں کو چیک کریں تو برقی قمقموں سے دن رات جگ مگ جگ مگ کرتی دکانوں کے بل محکمہ بجلی کی ملی بھگت سے چند ہزار ہوتے ہیں جبکہ 2 مرلے کے گھر کا بل کئی ہزار آتا ہے۔ حکومت اب یہ مہربانی کرے کہ بڑی دکانوں کو علیحدہ کیٹگری میں رکھے اور چھوٹی دکانوں کو الگ اسی طرح پوش اور عام علاقوں میں بھی فرق ملحوظ رکھا جائے سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکے اس کے ساتھ محکمہ بجلی کی ملی بھگت سے بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے ان دونوں کو بھاری جرمانہ اور سزا دی جائے۔ اب عوام کو پریشانی اس بات سے ہے کہ یہ تاجر فکسڈ بجلی ٹیکس سے پڑنے والا بوجھ بھی عوام سے نکلوائیں گے اور چیزیں مہنگی کریں گے یوں 5 ہزار فکسڈ ٹیکس کے جواب میں عوام کی جیبوں سے 50 ہزار نکلوائیں گے۔ انہیںتو ہر طرف سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس لیے جو جتنی بجلی استعمال کرتا ہے ایمانداری سے اس سے اتنا ہی بل وصول کیا جائے اور جو ریڑھی والے پتھارے دار کئی کئی سو والٹ کے بلب جلا کر ساری رات چراغاں کیے رہتے ہیں ان کو بھی اور ان کو غیر قانونی طریقے سے بجلی فراہم کرنے والوں کو بھی قانون کی مددسے قابو میں کیا جائے۔