امریکہ سے نفرت کیوں؟
کسی سے محبت یا نفرت کرنے کے بہت سے جواز ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم کسی سے محض اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ اس کا رویہ یا سلوک دوسروں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا۔ لیکن زیادہ تر ہم کسی سے نفرت اس لیے کرتے ہیں کہ اس کا رویہ ہمارے ساتھ درست نہیں ہوتا۔ امریکہ کا معاملہ دونوں حوالوں سے یکساں ہے۔ خود امریکہ کا وجود اور اس کی پالیسیاں ایسی نہیں کہ اس کیلئے دل میں کوئی عزت و احترام پیدا ہو۔ ویت نام سے لیکر اسلامی دنیا تک اسکی جارحیت اور بربریت کی شرمناک مثالیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ جھوٹے الزامات لگا کر اور غلط رپورٹیں پیش کرکے عراق کو تباہ و برباد کیا گیا۔ روس کی شکست اور افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ امریکہ اور اتحادی افواج کے ہاتھ لاکھوں معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ امریکہ نے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے مدمقابل سپرپاور روس کیخلاف مسلمانوں کو مسلح کیا۔ ان کو تربیت فراہم کی اور انکے ذریعے روس کو شکست اور تقسیم سے دو چار کیا۔ پھر یورپ اور غیر مسلم ممالک کو اس خوف میں مبتلا کرکے اپنے ساتھ ملایا کہ اگر ان تربیت یافتہ مسلح مسلمانوں کا خاتمہ نہ کیا تو یہ روس کی طرح بہت جلد امریکہ اور غیر مسلم ممالک کو بھی ہزیمت و شکست سے دو چار کرکے پوری دنیا پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ لہٰذا11/9 کا ڈرامہ رچا کر کل کے مجاہدین اور حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیکر انکے خلاف اعلان جنگ کر دیا گیا۔ یہ جنگ دراصل مسلم دنیا کے خلاف تھی اور اسی کے تحت مسلم ممالک کو انتشار اور عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا ہے۔
یہ تو تھا مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کے کردار کا ہلکا سا اشارہ۔ آیئے اب امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور رویے کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ امریکہ پاکستان سے دوستی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی ہر موقع پر حمایت کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ جوہری معاہدے کرتا ہے۔ اسکے ساتھ جنگی مشقیں کرتا ہے۔ اسے اپنا سٹریٹجک پارٹنر بناتا ہے۔ افغانستان میں اسی کے اثر ورسوخ کو بڑھاتا اور پاکستان میں اس کی تخریبی کارروائیوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ حالانکہ عالمی اصول ہے کہ دوست کا دوست اپنا دوست اور دوست کا دشمن اپنا دشمن لیکن اس حوالے سے بھی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ منافقانہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔2 مئی2011ء کو امریکہ نے تمام عالمی، پاکستانی اور اخلاقی قوانین، اصولوں اور پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فضائی جارحیت کی اور ایبٹ آباد میں فوجی کارروائی کی۔ یہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری پر کھلا حملہ تھا جس نے امریکہ کی دوستی کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن ہمیشہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر الزامات لگاتے اور مختلف قسم کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل بھی انہوں نے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور انہیں ہدف تنقید بنایا۔ پاکستانی فوج اور حکومت کو چاہیے کہ وہ امریکہ کے ناجائز مطالبات اور دھمکیوں کو امریکی فوج کے سابق سربراہ کے نام پر بھی نہ لکھے۔پاکستان کی تمام تر قربانیوں اور جانی و مالی نقصان کے باوجود امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان کی تمام قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی ایجنسیوں کے امریکہ کے مخالف عناصر سے تعلقات ہیں۔ پاکستان نے امریکی مفادات کا خیال نہ رکھا تو تعلقات متاثر ہوں گے جبکہ امریکی صدر کے مشیر نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو سخت پیغام دیا تھا۔ یہ ہے امریکہ کی پاکستان سے دوستی کی حقیقت لیکن اس کے باوجود ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ’’پاکستان میں امریکہ مخالف پروپیگنڈے پر سخت تشویش ۔‘‘
٭امریکہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان سے آنکھیں پھیر لے۔٭ہمارے شہریوں کو اغوا کرکے اپنے عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کرے۔٭ اپنے ملک میں مسلمانوں خاص طور پر پاکستانیوں سے توہین آمیز سلوک کرے۔٭ اسکے فوجی قرآن پاک اور پاکستان کی بیٹی کی بیحرمتی کریں۔٭ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو قتل کروائے۔٭ہر موقع پر دھمکیاں دے اور دھونس جمائے۔٭ہمارے نقصان کے ازالے اور امداد دینے کے بجائے ہم پر مختلف پابندیاں عائد کرے۔٭اسکے جاسوس پاکستان میں قتل و غارت کرتے پھریں۔٭پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی حمایت و امداد کرے۔٭اسرائیل اور بھارت سے مل کر پاکستان کیخلاف سازشیں اور کارروائیاں کرے۔
تو پھر امریکہ ہی بتائے کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد پاکستانی عوام امریکہ سے نفرت نہ کریں تو کیا اسکے قصیدے پڑھیں؟
(قندمکرر: 11؍ نومبر 2011ء کو یہ کالم شائع ہوا تھا لیکن صورتحال تبدیل نہ ہونے پر دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔ )