فوج مخالف بیانیے کا مستقبل
آزاد کشمیر کے الیکشن کے نتائج ہو سکتا ہے کچھ دوستوں کے لئے غیر متوقع ہوں مگر میرے لئے ہرگز نہیں کیونکہ مجھے ایسے ہی نتائج کی امید تھی اور مجھے یقین تھا کہ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی آزاد کشمیر کے عوام پاکستان میں برسراقتدار جماعت کو ہی ووٹ دینے کا تسلسل قائم رکھیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی گمان تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر کی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت بن کر سامنے آئے گی بلکہ اس سے بڑھ کر مسلم لیگ نون کے تیسرے نمبر پر آنے کی بھی پوری توقع تھی۔
مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ جو ہے اور جیسا بھی ہے سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں کر پا رہا۔ اب اسے نواز شریف‘ مریم نواز اور شہباز شریف کے بیانیہ کا ٹکراؤ سمجھ لیں‘ اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریہ مان لیں یا ریاست والوں کو برسراقتدار وفاقی جماعت کے حق میں اپنا وزن ڈالنے کی عادت …!
کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کا قد چھوٹا ہو گیا ہے‘ یہ جو بھی بیانیہ ہے اسے کھلے الفاظ فوج مخالف بیانیہ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہ غلط فہمی اب دور ہو جانی چاہئے کہ فوج کے خلاف بات کر کے آپ مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس مغالطے کی بنیاد ہی غلط ہے کہ عوام کی اکثریت فوج سے تنگ ہے یا فوج کو پسند نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے کہ چند افراد اور ان کے فیصلوں پر لوگوں کے اعتراض یا اعتراضات ہوں لیکن اس سے یہ فیصلہ کر لینا کہ فوج کے خلاف بات کرنے سے ووٹ اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔ ہوائی قلعے تعمیر کرنے سے زیادہ مختلف نہیں۔ پنجاب‘ سرحد اور سندھ آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے ہیں اور یہاں آباد لوگ دل سے افواج پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ حب الوطنی اور فوج سے محبت ایک طرح سے ان کی گھٹی میں ہے۔ بہت زیادہ پیسے والے یا بالکل غریب لوگ ان جھمیلوں میں نہیں پڑتے‘ ان کے لئے پیسہ اور روٹی ہی سب کچھ ہوا کرتی ہے۔ ایسے میں وطن اور فوج سے محبت کرنے کا وقت اور حوصلہ کم لوگوں میں ہی ہوا کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سارے ایسے ہیں مگر سواد اعظم کی کیفیت ایسی ہی ہے۔
پاکستانی شہروں اور قصبوں میں بسنے والے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس جو اکثریت میں ہیں‘ ان کے لئے کسی ایسے خیال پر یقین کرنا یا ایمان لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جس کے تحت آپ فوج کے خلاف بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کو تقویت مل سکتی تھی اگر میاں نواز شریف پاکستان میں رہ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنی جو بھی سیاست کرتے تو عام آدمی بھی یقین کر لیتا لیکن اگر یہ لگے کہ خود تو صعوبتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں اور پولیس کے ڈنڈے‘ سڑکوں کے دھکے اور جون‘ جولائی کی گرمی کھانے کے لئے غریب کا بچہ رہ گیا ہے تو اب وہ دور نہیں بلکہ اب ہر کسی کے ہاتھ میں فون ہے اور بندہ خود سمارٹ ہو نا ہو اس کا فون ضرور سمارٹ ہوتا ہے‘ ایسے میں کسی کو بھی چکر دینا ذرا نہیں بہت مشکل کام ہے۔
وہ جو کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو کچھ وقت کے لئے اور کچھ لوگوں کو تمام وقت کے لئے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن تمام لوگوں کو تمام وقت کے لئے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔المیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن )جو عوامی سیاسی جماعت ہے یا ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے عوامی حرکیات کو فی زمانہ سمجھنے سے قاصر ہے۔
آزاد کشمیر کے الیکشن میں سیٹیں تو کشمیر میں ہیں ان کے انتخابات اپنی جگہ لیکن جو مہاجر سیٹیں پشاور سے کراچی تک پھیلی ہوئی ہیں ان کے بارے میں بنیادی تصورات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں‘ جس بھی صوبے میں مہاجرین کی نشستیں ہیں وہ سراسر اس صوبے کی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کے کسی نہ کسی کے اثر میں ہوتی ہیں اور یوں یہ پیغام بنتا ہے کہ مہاجرین کی نشستیں تو وہاں کی حکومتیں نکال ہی لیں گی تو ایسے میں وادی کی مرکزی حکومت کی جماعت کے خلاف کیونکر ووٹ آئیں گے؟
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے وابستہ ہر ووٹر یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا ووٹ ضائع نہ ہو اور وہ بھی جیتنے والی صف میں کھڑا ہو تو ایسے میں آزاد کشمیر میں ماضی کے انتخابی نتائج‘ حال اور مستقبل کے انتخابی نتائج سے کبھی مختلف نہیں ہوں گے۔
یہاں ذرا ٹھہرئیے اور دل تھام کر یہ بھی سن لیجئے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اپنی موجودہ حکمت عملی پر نظرثانی نہیں کرتی تو مزید نقصان اٹھائے گی اور آئندہ عام انتخابات میں پاکستان بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص مزید سکڑ کر رہ جائے گی۔ مجھے بالکل حیرت نہیں ہو گی اگر بیانیہ یہی رہا تو عام انتخابات کے نتائج پاکستان اور پنجاب میں ایسی ہی تصویر پیش کریں گے۔