پاکستان ہی کشمیر کا وکیل اور سفیر ہے
یہ الفاظ وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے ادا ہوئے ہیں کہ ’’پاکستان ہی کشمیر کا وکیل اور سفیر ہے‘‘ لیکن انہوں نے ریاست پاکستان اور پوری قوم کی ترجمانی کی ہے۔کشمیر کے وکیل اور سفیر ہونے کا حق پاکستا ن نے پورے خلوص اور دلجمعی کے ساتھ ا دا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پوری دنیا میں نکو بنا ہوا ہے اور وہ منہ چھپائے پھرتا ہے۔ پچھلے سال یواین سیکرٹری جنرل نے اگر یہ کہاتھا کہ کشمیر کا مسئلہ استصواب ِ رائے ہی سے حل ہو سکتا ہے تو اس کے پیچھے وہ تقریر جھلک رہی تھی جو وزیر اعظم عمران نے جنرل اسمبلی میں دھواں دھار انداز میںکی تھی۔کشمیر کو چودھری رحمت علی نے لفظ پاکستان میں شامل کرکے قومی بیانئے کی بنیاد رکھی تھی۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر اس خطے کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا اور اس کوملک کا جزو لاینفک ہونے کی سند بھی ملی۔
آزادی کے بعد حد بندی کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس کیلئے ریڈکلف کمیشن بنا،جس کی کارروائی لاہور ہائیکورٹ میں چلتی رہی،ریڈکلف کمیشن میں جسٹس دین محمد مسلمانوں کے مفاد ات کی نگرانی کررہے تھے۔ سرظفراللہ خان کو مسلم لیگ نے اپناکیس پیش کرنے کیلئے اپنی طرف سے وکیل مقرر کیا۔ انکی معاونت کیلئے سید افضل حیدر کے والد سید محمد شا ہ فرائض انجام دے رہے تھے۔ بعد ازاں بننے والے چیف جسٹس منیر بھی اس کمیشن کی کارروائی سے وابستہ رہے۔اور خواجہ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے بھی کمیشن کی کارروائی میں معاونت کے فرائض انجام دیئے ۔ کمیشن کی کارروائی کے دوران جسٹس دین محمد کو پتہ چلا کہ کسی ایوارڈ کے اعلان کے بغیر ہی ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کردیا گیا ہے ،تاکہ اسے کشمیرکو ہڑپ کرنے میں آسانی رہے ۔ یہ اطلاع قائداعظم تک پہنچائی گئی ، جنہوں نے لارڈمائونٹ بیٹن سے ملاقات کی درخواست کی۔چودھری محمد علی اس ملاقات کیلئے گورنرجنرل کے دفتر پہنچے تو انکے سیکرٹری لارڈاسمے کے دفتر میں وہ نقشہ دیکھا جس میں پنجاب کی تقسیم کیلئے ایک سرخ لکیر لگائی گئی تھی۔چودھری محمد علی نے اپنے اس مشاہدے کا تذکرہ بھی قائداعظم سے کیا۔ ممبئی کی ایک میٹنگ میں ریڈکلف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ فیروزپورہیڈورکس اور گورداسپور بھارت کو دے رہے ہیں۔تو انہوں نے منافقت سے کام لیتے ہوئے کہاکہ ایسا نہیں ہوسکتا، یہ علاقے تو پاکستان کو ملیں گے۔ریڈکلف 7اگست کو دلی سے لندن کیلئے پرواز کرگئے ،ان کا فرض تھا کہ وہ اپنے ایوارڈکا اعلان کمرہ عدالت میں فریقین کے نمائندوں کے سامنے کرتے۔لیکن ریڈکلف نے یہ فیصلہ خفیہ رکھا۔ اور اسکی دہلی سے روانگی کے 10دن بعدآل انڈیا ریڈیونے اعلان کیاکہ ریڈکلف کمیشن نے گورداسپورکو بھارت میں شامل کردیا ہے ۔ اس پر پورے کشمیر میں ایک اضطراب کی لہر دوڑگئی۔جموں وکشمیر مسلم کانفرنس ایک اجلاس میں بہت پہلے کشمیرکے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کرچکی تھی۔ مگر اکتوبر میں خبر آئی کہ کشمیر کے ہندومہاراجہ نے بھارت سے الحاق کی دستاویزپر دستخط کردیئے ہیں۔ پاکستان نے اس پر سخت احتجاج کیا،جس تاریخ کو مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا،اس دن تو وہ مہاراجہ سری نگر میں موجود ہی نہیں تھا۔ پاکستان نے شد و مد سے اعلان کیا کہ الحاق کی یہ دستاویز جعلی ہے، خودساختہ ہے اور فراڈ پر مبنی ہے۔ پاکستان کا دعویٰ غلط نہیں تھا ۔بھارت الحاق کی یہ دستاویز یواین او کے ریکارڈمیں آج تک پیش نہیں کرسکا بلکہ اس نے یہ اقرار کیا کہ یہ دستاویزدہلی کے سرکاری کاغذات سے غائب ہوگئی ہے ۔پاکستان کا دعویٰ درست ثابت ہواکہ اس دستاویز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کیلئے فوج داخل کردی ۔پاکستان نے کشمیریوں کی اخلاقی،سیاسی اور مادی مدد کی ۔ مگر بھارتی افواج کو شکست کاسامنا کرنا پڑا۔بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے اس خفت سے بچنے کیلئے بھاگم بھاگ سلامتی کونسل سے سیز فائر کی بھیک مانگی۔ 1948ء سے 1949ء تک سلامتی کونسل نے کشمیر پر کئی قراردادیں منظور کیں۔اور کشمیر پر ایک خصوصی کمیشن بھی قائم کیا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں یہ واضح کہا گیا تھا کہ کشمیرکا مسئلہ استصواب سے حل ہوگا،مگر اس کیلئے پاکستان کو اپنی فوج متنازع علاقے سے باہر نکالنی ہوگی،جبکہ بھارت کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ امن وامان کی خاطر مناسب فوج وہاں رکھ سکتا ہے ۔ پاکستان نے اس شرط پر سخت احتجاج کیا۔ اور یہ اصرارکیا کہ جتنی فوج بھارت رکھے گا، اتنی فوج پاکستان کی بھی وہاں موجود رہے گی۔ سلامتی کونسل میں سرظفراللہ خان ہی وزیرخارجہ کے طور پر پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے۔ انکے دلائل کے سامنے بھارتی ٹیم کی ایک نہ چل سکی اور وہ پاکستان کو جارحیت کا مرتکب قراردلوانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔یہ بھارت کیلئے سخت مایوسی کا عالم تھا۔
مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔انکی تحقیق کے مطابق بھی مسئلہ کشمیر کو ایک منصفانہ استصواب کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ جسے پنڈت نہرو نے بظاہر تو دل و جان سے تسلیم کیا، لیکن اس نے منافقت کی حد کردی اور عالمی سطح پر کئے گئے تمام بھارتی وعدوں کوپس پشت ڈال دیا اور استصواب کی نوبت نہیں آنے دی۔سلامتی کونسل نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایک استصواب کمشنر مقرر کیا جائیگا،جس کی نامزدگی یو این او کریگی مگر بھارت نے اس تجویز کو بھی ہوا میں اڑادیا۔جبکہ پاکستان نے اسکی مکمل تائید کی۔
تاریخی طور پر پاکستان نے پچھلے 72برسوں میں کشمیر کازکی حمایت کی اور دنیا کے ہر فورم پر کشمیریوں کی حمایت کا اعادہ کیاہے۔ آج جیوپولیٹکل صورتحال یکسر بدل گئی ہے ، بھارت کی وسیع منڈیاں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کیلئے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اور بھارت جو مظالم کشمیر میں ڈھارہا ہے، ان کی طرف عرب اور اسلامی ممالک کی نظر نہیں جاتی۔ یہ سیاست او آئی سی کے ادارے میں بھی در آئی ہے اور متحدہ عرب امارات میںمنعقدہ اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ اجلاس میں بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج کو بھی مدعو کرلیا گیا۔پاکستان نے اس پر سخت ترین احتجاج کیا اور اپنی ناپسندیدگی کا کھلے عام اظہار کیا۔حتیٰ کہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا۔ پاکستان نے کشمیرکازکو دنیابھر میں ابھارنے کیلئے کئی ایک اقدامات کئے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے گئے۔پاکستان کی کوششوں سے سلامتی کونسل گذشتہ دوبرسوں میں دو بار مسئلہ کشمیر پر غوروخوض کرچکی ہے۔ جس پر بھارت کی تڑپ دیدنی تھی۔ کیونکہ وہ تو کشمیرکو اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ، اسے داخلی مسئلہ قراردیتاہے اور ایک زمانے میں وہ کشمیرکو دوطرفہ مسئلہ قراردیتا تھاکہ پاکستان اور بھارت ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں، بیرونی دنیا کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
دراصل مسئلہ کشمیر پر بھارتی بساط کو وزیراعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی میں تقریرنے تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔آج بھارت کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کی گردان نہیں کرپارہا،اس لئے کہ وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں دنیا کو خبردار کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت تین بڑی جنگیں کرچکے ہیں اور کنٹرول لائن اور سیاچن پر دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھی ہیں۔اس وقت بھارت نے ذرابھی بے احتیاطی سے کام لیااورکسی مہم جوئی کا ارادہ کیا اور سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈرامہ جاری رہاتو یاد رکھیں کہ پاکستان بھارت کے سامنے سرنڈر نہیں کرے گااورآخری دم تک اپنے دفاع کیلئے لڑے گا۔دنیا مت بھولے کہ یہ لڑائی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہوگی اور تباہی کا دائرہ خطے کی حدود سے بہت باہر تک پھیل جائے گا۔ عمران خان نے کہا کہ یہ دھمکی نہیں ، بلکہ میں اپنی تشویش کا اظہار کررہاہوں اور یو این او مسئلہ کشمیر کے حل میں تاخیری حربوں سے کام نہ لے۔پاکستان کی مسلسل سفارت کاری کے نتیجے میں کشمیر آج دنیاکی نظر میں ’’ایٹمی فلیش پوائنٹ‘‘ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔ یہ چند لاکھ کشمیریوں کا مسئلہ نہیںہے، نہ ہی چند لاکھ مربع میل پر محیط جغرافیے کا مسئلہ ہے، بلکہ یہ امن عالم کیلئے خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتا ہے ۔
یہ ہوتی ہے کشمیر کیلئے پاکستان کی سفارت کاری اور وکالت۔۔۔ یہ جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے ۔