بدھ ‘ 24؍ذی الحجبدھ ‘ 24؍ذی الحج‘ 1442ھ‘ 4؍ اگست 2021ء
‘ 1442ھ‘ 4؍ اگست 2021ء
وزیر اعظم ہائوس میں کمرشل سرگرمیاں شروع کرنے کی تجاویز تیار
چلیں یہ بھی پیسے کمانے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ یہ بڑے بڑے محلات آخر کس کام آتے ہیں۔ یونہی پڑے پڑے کھنڈر بن جاتے ہیں۔ فارسی کے ایک شعر کا مطلب بھی کچھ یوں ہے کہ ’’اب افراسیاب کے گنبد میں الو بولتے ہیں اور کسریٰ کے محلات پر مکڑی نے جالے بن رکھے ہیں۔ یہ بڑے بڑے محل جو کبھی بادشاہوں کے زیر استعمال ہوتے ہیں۔ وہی بعد میں ٹکٹ لگا کر سیاحوں کے لیے کھولے جاتے ہیں ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘ ۔ اب خبر یہ ہے کہ وزیراعظم ہائوس کو آمدنی کا ذریعہ بنانے کے لیے یہاں کمرشل تجارتی سرگرمیاں شروع کرنے کی تجاویز تیار کر لی گئی ہیں جو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کی جائیں گی۔ اس طرح یہاں ثقافتی سماجی پروگرام ، فیشن شو اوراور انٹرنیشنل کانفرنسیں ،مقامی و غیر ملکی کھانوں اور قیمتی اشیا کی نمائش منعقد ہوںگی۔ پہلے پہل تو وزیراعظم نے بڑے دھڑلے سے اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم ہائوس ایوان صدر ، وزیر اعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوسز کو یونیورسٹیاں بنا دوں گا۔ مگر لگتا ہے اب آمدنی اور تجارت فروغ علم کے جنوں پر غالب آ چکا ہے اور مال کمانے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ یوں اب فی الحال وزیراعظم ہائوس کمائو پت بن کر قومی خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ادا کرے گا اور کئی تنظیمیں اور ادارے بڑے فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہماری نمائش وزیراعظم ہائوس میں ہو رہی ہے یا ہمارا فنکشن پی ایم ہائوس میں ہو گا اس لیے حکومت نے خالی وزیر اعظم ہائوس کو آباد رکھنے کی یہ نئی راہ نکال لی ہے۔ بہتر تھا کہ قومی عمارتوں کی اس طرح بے قدری کرنے کی بجائے اگر حکمرانوں کی نجی رہائشگاہوں کو آمدنی کا ذریعہ بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ مگر ہمارے حکمران خواہ کوئی بھی ہوں کیا جاتی امرا ، بنی گالہ اور زرداری ہائوس کو تقریبات اور فنکشنوں کے لیے اس طرح کرائے پر دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
رہن سہن کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک قرار
یہ جس ادارے کی سروے رپورٹ ہے، وہ غیرملکی ہے۔ جن کا ایک ڈالر 162 پاکستانی روپے اور ایک پائونڈ 223 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ یہ لوگ اگر اپنی کرنسی کے حساب سے دیکھیں تو واقعی ان لوگوں کو پاکستان سستا ترین ملک لگے گا مگر اصل حقیقت پاکستانی عوام سے پوچھی جائے جن بے چاروں کا سو کا نوٹ دس روپے کے برابر کا رہ گیا ہے۔ کوئی چیز سینکڑوں سے نیچے نہیں ملتی۔ دس بیس کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ کھانے پینے سے لیکر پہننے، اوڑھنے تک، زندگی کے گزر بسر کی ہر سہولت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ سفید پوش طبقہ بھی کب کا اپنی سفید پوشی کا بھرم کھو چکا ہے۔ نہ ڈھنگ سے کچھ کھا سکتے ہیں نہ پہن سکتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے پہنچ چکی ہے۔ یوں ہم سستا ترین نہیں، دنیا کے غریب ترین ممالک میں بھی جگہ بنا چکے ہیں۔ ہاں بیرون ملک سے غیرملکی کرنسی لے کر یہاں آنے والوں کیلئے واقعی سستا ترین ہوگا کیونکہ ان ممالک کا رہن سہن، اوڑھنا بچھونا واقعی ہم سے کروڑ درجہ بہتر اور مہنگا ہے، ہم تو اس درجہ تک پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ نہ ہی ہماری کرنسی کی اتنی وقعت ہے کہ ڈالر اور پائونڈ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی خوش ہوتا ہے کہ پاکستان سستا ہے تو وہ خوش ہوتا پھرے کیونکہ ان کے اکائونٹ بھرے ہوئے ہیں یا ان کے پاس باہر سے پیسہ آرہا ہوتا ہے۔ ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں۔ اب حکمران اس رپورٹ کو اپنے حق میں کیش کرا کے ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ والی پالیسی پر عمل جاری رکھتے پھریں گے۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں مکمل لاک ڈائون کے باوجود ایم این اے کے گھر شادی کی بھرپور تقریب
جی ہاں یہ بات حیران کن ہے۔ کیا لاک ڈائون صرف غریب آبادیوں میں لازمی ہے اور پوش ایریاز اس سے بری الذمہ ہیں۔ ڈیفنس میں رہنے والے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اسلم خان کے گھر گزشتہ روز ان کی بیٹی کی شادی کی شاندار بھرپور تقریب ہوئی جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کیا یہاں کسی کو کرونا سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لاک ڈائون کی پابندی کو جوتے کی نوک پرکیوں اچھالا گیا۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک لازمی ہے۔ اب اگر سندھ حکومت اس ڈر سے ایکشن نہیں لیتی کہ پہلے ہی وفاقی حکومت سے تنائو چل رہا ہے تو کل کو کوئی اور بھی شادی کی ایسی پررونق، شاندار تقریب منعقد کرکے لاک ڈائون کی پابندیوں کی دھجیاں بکھیر سکتا ہے۔ اس وقت حکومت سندھ کیا کرے گی۔ ویسے بھی کراچی میں کروڑوں غریب کے مقابلے میں لاکھوں پیسے والے بھی رہتے ہیں۔ اگر یہی دوغلی پالیسی رہی تو پھر کرونا پر قابو پانے کی باتیں بھول جائیں اور کرونا کا شکار ہونے کیلئے تیار رہیں۔ اس بار تو بھارتی ڈیلٹا کرونا کی وجہ سے کسی قسم کی گنجائش بھی نہیں رہی۔
٭٭٭٭٭
لیگی رہنمائوں کا مریم نواز کی ایک سال کے لیے زبان بندی کا مطالبہ
یہ ہم نہیں کہہ رہے۔ زبانِ خلق پہ آج کل یہ فسانہ مچل رہا ہے۔ جب تک کوئی بات نہ ہو کہانی معرض وجود میں نہیں آتی۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور آج کل مسلم لیگ (ن) میں چل رہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے سینئر لیگی یہ بات کہہ رہے ہیں ۔ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں انتخابی شکست مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ لاکھ دھاندلی کا جھرلو کا شور مچایا جائے مگر آزاد کشمیر ہاتھ سے نکل گیا۔ سیالکوٹ کی سیٹ بھی گئی۔ اس کی وجہ بہت سے لوگوں کے نزدیک نواز شریف کا بیانیہ ہے جس کی مریم نواز نقیب ہیں۔ اس صورت میں جب ہوا مخالف سمت میں چل رہی ہو ، کشتی کو ہوا کے مخالف سمت میں چلانا خودکشی کہلاتا ہے۔ اندرون خانہ لگ رہا ہے میاں شہباز شریف کو (ن) لیگی قیادت فری ہینڈ دینا چاہتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مریم نواز کو کنٹرول کیا جائے جو چھوٹے میاں کی تمام کوششوں پر پانی پھیر سکتی ہیں۔ اب شہباز شریف پھر تیزی سے سیاسی معاملات میں جگہ بنا رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نئی پلاننگ ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے۔ چند ماہ میں یا شاید اس سے بھی قبل سیاسی شطرنج کی بساط پر نئے مہرے نئی چال چلتے نظر آ سکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہماری سیاست میں کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ مگر ن میں سے ش نکلتی دکھائی نہیں دے رہی البتہ ایک دھڑے کو ضرور کچھ عرصہ مصلحت سے ہی سہی چپ رہنا پڑے گا۔