وزیراعظم دعوؤں سے آگے بڑھ کر مہنگائی پر قابو پائیں
حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ مہینے کے دوران مہنگائی میں معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کا ادارۂ شماریات ملک بھر میں ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر مختلف اشیا کی قیمتوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرتاہے اور پھر ان کا جائزہ لے کر بتاتا ہے کہ مجموعی طور پر اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ۔ اس ادارے کی جولائی سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ماہ کے دوران افراطِ زر یا مہنگائی کی شرح 8.4 فیصد رہی جو ماہِ جون کے مقابلے میں 1.3 فیصد کم ہے۔ جون میں مہنگائی کی ماہانہ بنیاد پر شرح 9.7 فیصد تھی۔ جولائی پر ختم ہونے والے مالی سال کے دوران مجموعی طور پر مہنگائی کا تناسب 8.9 فیصد رہا جبکہ اس سے پچھلے مالی سال میں یہ شرح 10.74 فیصد تھی۔ گزشتہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح میں 11.1 فیصد پر پہنچنے کے بعد اپریل میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا جس میں اگلے تین مہینے کے دوران بتدریج 2.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یہ سب حکومتی اعداد و شمار ہیں اور ہر حکومت کو ایسے اداروں اور افراد کی امداد و اعانت حاصل ہوتی ہے جو اعداد و شمار کی جادوگری سے وہ چیزیں بھی دکھا دیتے ہیں جن کا حقیقی وجود کوئی نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان اعداد و شمار کی تصدیق اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور عام آدمی کے مالی مصائب میں کمی سے ہوتی ہے یا نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آئے تین برس مکمل ہورہے ہیں لیکن اس دوران مہنگائی کا گراف مسلسل اوپر کی طرف سے ہی گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم عمران خان بارہا عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عام آدمی کو مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے درپیش مسائل کا ذکر کرچکے ہیں اور اپنی ہر تقریر میں عوام کو ریلیف دینے کی بات کرتے ہیں لیکن کیا ان تین برس کے دوران حقیقی طور پر کوئی ریلیف دیا بھی گیا ہے یا نہیں۔ اس کا جواب بھی وزیراعظم کی تقریروں سے ہی مل جاتا ہے جن میں اکثر مہنگائی کے بڑھنے کا ذکر ہوتا ہے۔ سوموار کو بھی اسلام آباد میں راول پنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے منعقد کی گئی تین روزہ انٹیریئر کنسٹرکشن، الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس (آئی سی ای ای) کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو خود مختار ملک بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔ ملکی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور شرائط ماننا پڑتی ہیں۔ اس موقع پر ویژن پاکستان پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نچلے طبقے کے لیے پروگرام لے کر آ رہے ہیں جس کے تحت غریب خاندان کے ایک فرد کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دیں گے جبکہ غریبوں اور چھوٹے کسانوں کو بغیر سود کے قرضے بھی فراہم کیے جائیں گے۔ہم 9 اگست کو بڑی دھوم دھام سے غربت کے خاتمے کے پروگرام افتتاح کر رہے ہیں۔ اس پروگرام میں جو 40 فیصد طبقہ جو نیچے ہے، اسے اوپر اٹھائیں گے۔
وزیراعظم کے یہ تمام اعلانات اور دعوے اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بھی ہر حکومت کی طرف سے ایسے ہی پروگراموں کا اعلان کیا جاتا رہا ہے اور ہر بار کہا یہی جاتا ہے کہ ان پروگراموں کی مدد سے غربت کا خاتمہ ہوگا، بے روزگاری میں کمی آئے، عوام کو ریلیف ملے گا، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پایا جائے گا، لیکن یہ سب باتیں صرف تقریروں کی حد تک ہی ہوتی ہیں۔ عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جس سے عوام کو ریلیف ملتا نظر آئے۔ عمران خان 2018ء کے عام انتخابات میں یہی نعرہ لے کر آئے تھے کہ وہ عوام کی ان مسائل و مصائب سے جان چھڑائیں گے جن میں سابقہ حکمرانوں کی وجہ سے یہ قوم گھِر چکی ہے۔ انہوں نے مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور بدعنوانی کے نعروں کو اتنی بار دہرایا کہ عوام نے ان پر یقین کرتے ہوئے ان کی جماعت کو اکثریت کے ساتھ نہ صرف وفاق بلکہ دو صوبوں میں بھی حکومت دلا دی۔ اب گزشتہ تین برس سے عوام عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ انتخابات کے دوران کیے گئے اپنے وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے عوامی مسائل میں کمی لائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بہت سے ایسے مسائل میں گھرا ہوا ہے جن کا حل فوری طور پر فراہم نہیں کیا جاسکتا اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک سمیت کئی بڑے اداروں نے اسے اپنے چنگل میں پھنسایا ہوا ہے اور اس سب سے نکلنے کے لیے بہت زیادہ وقت اور منصوبہ بندی کے علاوہ ملک کے مختلف طبقوں کا بھرپور تعاون بھی درکار ہے۔ لیکن عوامی مسائل میں کمی لانے کے لیے کچھ تو ایسے اقدامات میں کیے جانے چاہئیں جنہیں دیکھ کر عوام کو اندازہ ہو کہ حکومت واقعی ان کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
پاکستان میں گزشتہ تقریباً پانچ دہائیوں کے دوران آنے والے ہر حکمران نے عوامی مسائل کا ذمہ دار سابقہ حکمران کو قرار دیا اور مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنی اقتدار کی مدت کا تمام دورانیہ سابقہ حکمرانوں کے بدعنوانی کی داستانیں سناتے ہوئے گزار دیا۔ 2018ء میں عوام نے ماضی میں وفاق کی سطح پر تین تین بار حکومت بنانے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی اور عمران خان کو اس امید پر موقع دیا تھا کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی روش سے ہٹ کر عوامی مسائل حل کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ کوششیں کریں گے۔ اب پی ٹی آئی کے اقتدار کا ساٹھ فیصد دورانیہ گزر چکا ہے۔ اب سابقہ حکمرانوں کی برائیاں کرنے اور ملکی مسائل کے لیے انہیں ذمہ دار قرار دینے کی بجائے عوام کے لیے عملی طور پر کچھ کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ صرف اپنی تقریروں میں ہی عوام کے لیے ہمدردی کا اظہار نہ کریں بلکہ وعدوں اور دعوؤں سے آگے بڑھ کر حقیقی طور پر مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کچھ کریں۔