کرونا: پابندیوں کا فیصلہ
حکومت نے کرونا کی چوتھی لہر پر قابو پانے کیلئے اہم فیصلے کرتے ہوئے مارکیٹوں کے اوقات کار رات 10 سے کم کرکے 8 بجے تک کر دیئے ہیں جبکہ مارکیٹیں ہفتے میں دو دن بند رہیں گی۔ یہ اہم فیصلے وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت اجلاس میں کئے گئے۔ اجلاس کے بعد میڈیا کوب بریفنگ دیتے ہوئے انسدادکرونا کے قومی ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی منظوری کے بعد کچھ فیصلے کئے ہیں۔ بندشوں سے کمزور طبقہ بہت متاثر ہوتا ہے۔ ہم نے دیہاڑی دار طبقے کا بھی خیال رکھنا ہے۔ کرونا کی تین لہروں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی گئی تھی، اس وقت مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
وزیراعظم عمران خان لاک ڈاؤن کے کسی طور پر بھی حق میں نہیں۔ لاک ڈاؤن سے عام آدمی کو روٹی روزی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ریاست اگر شہریوں کو ضروریات زندگی مہیا کر دے تو مکمل لاک ڈاؤن اتناپریشان کن نہیں ہو سکتا مگر ریاست اس پوزیشن میں نہیں ہے۔ جہاں تو شہریوں کو جان بچانے والی ادویات فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ خدانخواستہ حالات بے قابو ہونے لگیں تو لامحالہ لاک ڈاؤن کی طرف جانا ہی پڑے گا۔ پاکستان کرونا سے بہت سے ممالک کی نسبت بہت زیادہ محفوظ رہا ہے۔ پاکستان نے جو حکمت عملی اختیار کی اس کی کئی ممالک نے تقلید کی۔ آج حالات ایک بار پھر ابتر ہو رہے ہیں۔ حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل کرکے کرونا کی اس لہر کے نقصانات کو کم از کم سطح پر رکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ لہر ماضی کی لہروں کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہے اس لئے حکومت کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ہفتے میں دو چھٹیوں کا اعلان کیا گیاہے اور یہ معاملہ صوبوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا کہ وہ کوئی سے بھی دن مختص کر سکتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ میں مسافروں اور دفاتر میں ملازمین کی حاضری 50 فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ خدانخواستہ صورتحال میں بہتری نہ آئی تو مزید پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ آج ہر شہری کی طرف تعاون کی ضرورت ہے۔ عجیب تفاوت اور تضاد ہے کہ ایک طرف حفاظتی تدابیرکے تحت بہت کچھ بندکیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف تعلیمی ادارے کھولے جا رہے ہیں۔ مزید یہ امر بھی تعجب خیز ہے کہ کالجزکے طلباء کے امتحانی سنٹرز میں پیپر ہو رہے ہیں اورکالج بھی کھولے جا رہے ہیں۔بہرحال حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ شہری ویکسنیشن لگوانے کو بھی یقینی بنائیں۔